تھیں بلکہ تعداد تکبیر اور محل تکبیرات زواید بتلانا منظور ہے ۔ یعنی تکبیرات زواید کی تعداد پانچ ہے اور محل زواید قبل القراۃ ہے ۔
باب النوافل قبل العیدین و بعدہ
مصلے میں مطلقا نہ پڑھے بلکہ قبل نماز عید تو گھر میں پڑھنا بھی اچھا نہیں ۔ بعد نماز اگرگھر میں نوافل پڑھے تو بلا شبہ درست ہے ۔
باب خروج النساء
فلتعرھا جلبا بھااس سے خروج کی تاکید نہیں نکلتی بلکہ غرض یہ ہے کہ اگر نکلیں تو تستر اور پردہ سے نکلیں اس سے پردہ کی تاکید نکلتی ہے ۔ آپ نے ازواج کو یہ حکم فرمایا کہ اپنی عورتوں کو نکلنے سے منع نہ کرو نساء کو امر بالخروج نہیں فرمایا کہ عورت کی نماز بہ نسبت صحن کے مکان کے اندر اولی ہے اور اس میں بھی حجرہ میں اولی اور پھر حجرہ کے بھی گوشہ اور پردہ بہتر ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے زمانہ میں بھی آپ نے دربارہ خروج تستر کو پسند فرمایاتھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فہم عالی سے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ آج کل کے حال کو دیکھتے تو ضرور منع فرمادیتے صحابہ کے فہم عالی پر فربان جائیے کہ وہ حال زمانہ کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات کو سمجھے اور ممانعت کا حکم فرمایا جس کی شکایت عورتوں نے حضرت عائشہ سے کی اس کے جواب میں حضرت عائشہ نے بھی فرمایا لو رارسول اللہ ﷺ ما احدث النساء بعدہ لمنعھن المساجد اور اس زمانہ میں جو کچھ فساد ہے اس کی بناء پر ممانعت کا حکم ظاہر ہے ۔ عمیر کا قصہ مشہور ہیکہ وہ اپنی زوجہ صاحبہ کے خروج الی المسجد کو نا پسند کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ منع کر دیجئے مگر انہوں نے ظاہر حدیث کے خلاف کرنا پسند نہ فرمایا ۔ ایک روز جب وہ مسجد کو تشریف لے گئیں تو حضرت عمر خفیہ اس راستہ پر جا پہنچے اور پو شیدہ ہو کر پیچھے سے انکی چادر پر قدم رکھدیا وہ چادر اس وجہ سے رکی تو انکی زوجہ نے پیچھے کو دیکھا مگر پہچانا نہیںانہوں نے فورا قدم اٹھا لیا اور چلے آئے انکی زوجہ نے گھر واپس آکر کہا کہ بے شک آپ کی رائے صحیح ہے آج کل زمانہ درست نہیں رہا اب مسجد میں نہیں جاونگی ۔ عمر نے فرمایا کہ اگر اب بھی یہ باز نہ آتیں اور ان کو خیال نہ ہوتا تو میں انکو ضرور منع کرتا ۔ آنحضرت ﷺ نے زینت اور خوشبو کے ساتھ نکلنے کو عورتوں کو منع فرمایا ہے ۔ اس زمانہ کی عورتیں تو بلا زینت نکلنے کو ہر گز پسند ہی نہ کریں گی وہ کہیں گی کہ اس ردی حالت میں نکلنے سے تو نہ نکلنا بہتر ہے بس اس زمانہ میں خروج نساء کسی طرح درست ہونہیں سکتا ۔ اس قدر اہل علم اپنے ہی زمانہ میں خروج نساء کو منع فرماتے ہیں ۔ پھر آجکل تو کیا ٹھکانہ ہے ۔
ابواب