جامعۃ یاصرف الصّلوٰۃ پکار دیتے تھے اسکے بعد عبداللہ بن زید ؓ کے خواب اور حضرت عمر ؓ کے خواب کی تائید سے اذان مشروع جاری ہوگئی۔
باب الترجیع
انصاف یہ ہے کہ دونو ں طرف روایات ہیں امام شافعی ؒ نے ابو محذورہ ؓ کی روایت کے موافق اذان کو معمول بہا بنایا اور امام صاحب ؒ نے حضرت بلال ؓ کی ذان بلا ترجیع کو جائز ہونے اور خیر القرون میں رائج ہونے سے کسی کو انکار نہیں کہ دونوں طرح ہوتا تھا۔ اب معمول بہا اور اولیٰ کہنے میں خلاف ہوا۔ مسجد نبوی ﷺ میں جس طرح پنجگانہ اذان ہوتی تھی امام صاحب ؒ اُسے لیتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ کے روبرو اذان ہوتی تھی اور آپ ﷺ ہمیشہ سنتے تھے اور کبھی تغیر کے لئے نہ فرمایا یہی کافی واجی وجہ اولویّت واستحباب کی ہے اور نیز عبداللہ بن زید ؓ کی روایت بدء الاذان کی بھی مثنی مثنی ہے چنانچہ جس جگہ مفصل ہے وہاں ترجیع کا پتہ نہیں بلکہ حنفیہ کے موافق ہے نیز امام صاحب ؒ فرماسکتے ہیں کہ ہم مطلق اذان کی ترجیع کو غیر مستحب نہیں کہتے بلکہ پنجگانہ اذان میں عدم ترجیع کو مستحب کہتے ہیں۔ پس کوئی پنجگانہ اذان میں ترجیع ثابت کردے ابو محذورہ ؓ کی روایت سے پنجگانہ نماز کی اذان میں ترجیع کسی طرح ثابت نہیں کیونکہ آپ ﷺ نے وہ اذان اعلام صلوٰۃ کے لئے نہیں کہلائی تھی کیونکہ اذان اسے سے پہلے ہوچکی تھی جس کی نقلیں اُتارنے کے جرم میں ماخوذ ہوکر ابو محذورہ ؓ نے دولت ایمان پائی۔ اور ترجیع کو بعض نے تعلیم پر حمل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے تعلیم کی غرض سے ترجیع کرائی تھی انہوں نے اصلی قاعدہ سمجھ لیا۔ یا یہ کہ شہادتین کو انکے دل میں راسخ کرانے کو تکرار کرایا یہ کہ ابومحذورہ ؓ نے شہادتین کو دبی زبان سے اور آہستہ کہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ خوب زبان کھول کر پکارو۔ چنانچہ انکے اسلام کا قصّہ مروی ومشہور ہے جس میں یہ بھی ثابت ہے کہ ان سے سوائے اس اذان کے علیٰحدہ کلمہ شہادت وتوحید نہیں پڑھایا گیا بلکہ صرف یہی کلمات مبارک اسلام کے لئے کافی سمجھے گئے پس جب ترجیع میں اتنے احتمال ہیں اور برتقدیر تسلیم ترجیع (بوجہ معمول بہا ہونے اور بدء الاذان میں مذکور ہونے کے عدم ترجیع کو ترجیح ہے تو امام صاحب ؒ کو کیا ضرورت ہے کہ دوسری جانب کو اختیار کریں۔ تکبیر میں بھی تکرار و عدم تکرار کے جواز میں کلام نہیں لیکن خلاف اولویّت میں ہے چونکہ وہی روایت ابومحذورہ ؓ کی نہایت قوی ہے اور تکبیر کے کلمات سترہ مروی ہیں۔ پس اقامت میں اسی پر عمل ہے اور اسمیں مثل اذان کے کوئی احتمال وغیرہ نہیں۔ باقی امر بلال ؓ سے دوام ثابت نہیں۔ ممکن ہے کہ بیان جواز کے لئے کسی وقت امر فرمایا ہو۔ نیز روایت عبداللہ بن زید ابن عبدربّہ ؓ صاف یہی پتہ دیتی ہے کہ کان اذان رسول ﷺ الخ پس امام صاحب ؒ اسی کو لیتے ہیں جو معمول بہا تھی۔ قدقامت الصّلوٰۃ کے تکرار میں کسی کو ہرگز خلاف نہیں خلاف مذکورہ باقی کلما ت میں ہے۔