ابواب الفتن
لاعبا جادا سے یا تو یہ مراد ہے کہ اول لاعبا اٹھاوے اور انجام موقع پر سچ کر دکھاوے۔اور چیز رکھ لے، یا یہ کہ نہ لاعبا نہ جادا، غرض مومن کی پریشانی کاکوئی کام نہ کرے۔
ام سلمہ: کی روایت میں جس جیش کے خسف کا ذکر ہے وہ بیدار میں واقع ہوگا۔ کما فی الروایۃ الاخریٰ۔
کلمۃ العدل عندالسلطان: کہنا بڑا جہاد ہے۔ پس عزیمت تو یہ ہے کہ تنہا بھی کسی سے نہ ڈرے اور رخصت یہ ہے کہ اگر سمجھے کہ مخالفین ایذا دیں گے تو اپنی جماعت سے دوچند مخالفین سے نہ بھاگے اور نہ ڈرے۔ اگر زیادہ ہوں تو سکوت وخوف کی اجازت ہے مگر عزیمت وہاں بھی وہی ہے غرض اس کا اورجہاد کاایک حکم ہے۔
لترکبن سنن من قبلکم: معلوم ہوا کہ فضول خیالات کے درپے ہونا نادانی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے سخت جواب دیا کہ یہ تو اجعل لنا الٰہا کے مشابہ ہے بلا کسی امر کے حرص وخواہش یادوسروں کی پیروی کرنا اچھا نہیں۔ اکثر فتنہ وبدعات کی بنا اسی طرح مباحاثات سے ہوتی ہے مگر آخر کو شرط ہوجاتاہے۔
یاجوج ماجوج: کاکسی کو نظرنہ آنا اور سیاحوں کا وہاں تک نہ پہنچنا ان کی عدم موجودگی کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ بہت سے مخفی مقامات اب تک معلوم نہیں ہوئے اور بہت سے ہوتے رہتے ہیں سد سکندری کی اب وہ چمکد دمک باقی نہیں رہی کہ دور سے نظر آجائے بلکہ مرور زمانہ سے مثل سیاہ پہاڑ کے ہوگی جس میں تمییز بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ اور اصل یہ ہے کہ جس چیز کا خدا تعالیٰ کو مخفی ہی رکھنا منظور ہو اس کو کون ظاہر کرسکتاہے؟
لایجاز تراقیہم: یاتو عدم قبول سے کنایہ ہے یا یہ مراد ہے کہ قلب پراثر نہ کرے گا۔ قول خیر البریۃ یعنی رسول اللہ ﷺ کے اقوال یا یہ کہ عمدہ باتیں۔ ان فرق ضالہ کی تکفیر میں سلف نے تامل کیا ہے اور تکفیر نہیں کی اور خلف نے ان لوگوں کو کافر کہاہے یا یوں کہاجائے کہ ان کے سلف قابل تکفیر نہ تھے ، خلف ا ن سے بدتر اور قابل تکفیر ہوگئے، ہمارے علماء سلف نے ان کے سلف کو دیکھا لہٰذا تکفیر سے باز رہے ہمارے علماء خلف نے ان کے خلف کو نہایت بدتر حال میں پایا لہٰذا تکفیر سے چارہ نہ دیکھا۔