ہوتاہے پس آپ ﷺ نے قیس کو تنہا سریہ بناکر بھیجا اور اگر علی کا نسخہ لیاجائے تو مطلب یہ ہے کہ لشکر پر سردار بناکر بھیجا گیا۔
آنحضرت ﷺ کے غزوات انیس سے کم زیادہ بھی بیان ہوئے ہیں وجہ یہ ہے کہ بعض غزوات کی بعض روات کو خبر نہ ہوئی اور بعض کو باوجود اطلاع کے قابل ذکر نہیں سمجھا، ایسا غزہ جس میں ہر دوطرف سے قتال واستعمال صلاح ہواہو وہ سب سے اول بدر تھا۔
أفررتم کے جواب میں صحابی نے ماولیٰ رسول اللہ ﷺ فرمایا۔ جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ نہیں کل مسلمان نہیں بھاگے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور بعض اصحاب علی حالہ قائم تھے اور فرار وہ معتبر ہے کہ کل لوگ بھاگیں۔ یا خلاصہ جواب یہ ہے کہ فرار وہ معتبر ہے کہ امام بھاگے اور آپ ﷺ چونکہ قائم تھے لہٰذا فرار نہ ہوا۔ یہ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ ﷺ کے چچا کے بیٹے ہوتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کے والد ابوسفیان دوسرے ہیں جو فتح مکہ پر اسلام لائے تھے سیف وغیرہ پر اگر ملمع سیم وزر کا ہو تو مضائقہ نہیں کیونکہ اس کا جرم نہیں ہوتا لہٰذا اس کا اعتبار نہیں اور اگر ذہب وفضہ کے پترے اور جرم ہو تو مواضع استعمال میںجائز نہیں اطراف میں ہو جن کو پکڑا نہ جاتاہو تو جائز ہے جیسے آپ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کے باہر کی طرف یعنی کٹوری پر لگا ہوا تھا، یہی حکم دیگر اشیاء کاہے۔
شکال بعض کہتے ہیں کہ یہ تین پاؤں علی حالہ ہوں اور ایک محجل ہو۔ بعض اس کا عکس کہتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ دو محجل ہوں پھر اس میں بعض کہتے ہیں کہ ہر دو موافق جانب کے ہوں۔ بعض کہتے ہیںمخالف ہونے چاہئے، یعنی آگے کا پاؤں دائیں جانب کا ہو تو پچھلا بائیں جانب کا ہو۔
ظاہریہ ہے کہ جرس وکلب کے ساتھ ملائکہ نہ ہوں اگرچہ ضرورتا ہی رکھے گئے ہوں اور شراح فرماتے ہیں کہ ضرورت میں جب اجازت ہے تو ملائکہ بھی آتے ہیں۔ نہ داخل ہونا صرف اس صورت میں ہے کہ بلاضرورت یا لہو کے لیے ہو۔
حضرت علی ؓ نے جو قبل تقسیم غنیمت میں سے لے لیا۔ یا تو آپ ﷺ سے اجازت لے لی ہو یا سہم ذوالقربیٰ میں سے لیا ہو چنانچہ روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ علی ؓکا اس سے زیادہ حق مغنم میں ہے شکایت علی ظاہر الصورۃ تھی۔
باب التحریش والوسم
تحریش اس لیے منع ہے کہ آدمی کا اس میں کچھ نفع نہیں اور جانوروںکو ناحق تکلیف وایذا ہوگی۔ داغ دیناحیوان وانسان کے چہرہ پر بلاسخت ضرورت کے ہرگز جائز نہیں دیگر اعضاء پر جائز ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے گھوڑوں کو داغ لگایا ہے۔