ثابت ہے حضرت عائشہ ؓ نے سوال کیا کہ آپ ﷺ وتر سے پہلے آرام فرماتے ہیں اوراس میں خوف فوت وتر ہے آپ ﷺ نے فرمادیا کہ جس قلب پر مدارغفلت وہوش ہے وہ سوتا ہی نہیں پھرکیا خوف ہے کم ازکم سات اور زیادہ سے زیادہ تیرہ رکعتیں وتر کی ایسی ثابت ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ہزار رکعتیں رات بھر میں ادا کرے وہ بھی تہجد میں شمار ہوں گی اور اگر دو پڑھے وہ بھی لیکن کلام اس میں ہے کہ مسنون اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بہا کیاتھا؟ پس اس میں نو رکعت مع الوتر اور گیارہ مع الوتر بھی ثابت ہیں تیرہ کی روایت میں یا تو وہ دو رکعت خفیفہ شمار کرلی گئی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبل التہجد بطور تحیۃ الوضو پڑھتے تھے یا سنت فجر کو بوجہ اتصال کے اس میں شمار کرکے مجموعہ تیرہ بیان کیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قضاء تہجد کرتے تھے اور لوگ بھی کریں تو جاائز ہے۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہے کہ جس کاکوئی وظیفہ اور ذکر معین فوت ہوجائے تو اس کو قبل الزوال ادا کرلے تو گویا اپنے وقت ہی پر پڑھاگیا۔ وتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبل از خواب ادا کرلیتے ہوں گے اور اس میں شک راوی کے لیے ہے زرارۃ بن اوفیٰ کا قصہ وفات صرف ان کی توثیق وفضیلت کی غرض سے بیان کیا ہے کیونکہ وہ بھی حدیث کے ایک راوی ہیں۔
باب نزول الرباب
مجازی معنی مراد ہیںیا حقیقی ہی ہوں آئندہ اس سے ترمذی ؒ بحث کریںگے۔
ابواب الوتر
ان اﷲ أمدکم حنفیہ کی حجت ہے کہ وتر واجب کیونہ امدکم فرمایا گیاہے اور مزید کے لیے ضرور ہے کہ جنس مزید علیہ سے ہو پس وتر بھی منجملہ واجبات سے ہوں گے۔
لیس بحتم کصلوٰتکم سے نفی وجوب نہیںثابت ہوتی، لایجلس فی شییٔ یعنی طویل نہ کرتے تھے،یامنسوخ ہے لأن الاجماع علی خلاف ذلک اور بہتر یہ ہے کہ یوں کہاجائے کہ حضرت عائشہ ؓ ترویحہ کے جلوس کی نفی فرماتی ہیں ،مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ چار رکعت پڑھ لیتے تو سلام کے بعد بیٹھ کردیر تک خوب ذکراللہ کرتے رہتے اورپھر اسی طرح چار تہجد کی پڑھتے اورترویحہ میں دیر تک بیٹھے رہتے، اس کے بعد جب دوپڑھتے تو اس قسم کاجلسہ نہ کرتے بلکہ دو کے بعد فورا تین وتر پڑھتے اور کل پانچ رکعت کے بعد جلسہ بطورترویحہ کی نوبت آتی پس وہ نفی اس کی کرتے ہیں کہ نہ تو آپ دوپر بطور ترویحہ بیٹھتے اور نہ چار پر (کیونکہ ان دو پر تو سلام ہی نہ ہوتا تھا۔ اس لیے کہ یہ تو وتر کی پہلی دو ہیں) بلکہ پانچ پوری کرکے بیٹھتے پس جلوس خارج صلوٰۃ بطور ترویحہ علی راس الرکعتین کی نفی فرمائی گئی ہے۔ والاذان فی اذنہ یعنی ایسے جلد پڑھتے کہ گویا تکبیر سن کر بوجہ فرض کے جلدی فرمارہے ہیں، مذہب مشہور وقوی وتر میں دو ہی ہیں ایک تو تین کا بھی ہے لیکن تین کے