مشہور یہ ہے کہ امام صاحب تغریب کو نہیںمانتے لیکن انصاف یہ ہے کہ تغریب کی مشروعیت میں خلاف نہیں۔ خلاف صرف اتنی بات میں ہے کہ وہ داخل حد ہے یا نہیں؟ روایات میں تغریب کاذکر ہے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ جزوحد ہے وہ صرف اس لئے تھی کہ دوسروں کو مذکر نہ ہو اور سد باب معاصی ہوجائے۔ قرآن شریف میں اس کا ذکر نہیں اور روایات خبر واحد ظنی ہیں ان سے ثبوت حدود نہیں ہوسکتا۔ قرآن شریف میں نہ ہونا صریح دلیل ہے کہ یہ جزو حد نہیں بلکہ امام کی رائے پر ہے۔ گزشتہ روایت میں جلد مائۃ ثم الرجم وجلد مائۃ ونفی عام وارد ہے اس میں اگر بطرز حنفیہ جلد قبل الرجم اور نفی عام کو داخل حد نہ ماناجائے اور رائے امام اورتشددپر حمل کیاجائے تو معنی بن جاتے ہیں ورنہ شوافع بھی اس کومنسوخ کہتے رہیں گے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو تغریب عام کی وہ ملحق بدار الحرب ہوگیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ آئندہ سے تغریب نہ کروں گا۔ اس سے صراحۃ معلوم ہوا کہ وہ داخل حد نہیں ورنہ حدوداللہ کو کسی وجہ سے چھوڑنا حضرت عمر ؓ جیسے شخص سے بعید ہے۔ تغریب عبد میں شوافع کا خود خلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس میں مولیٰ کا ضرر ہے لہٰذا نہ چاہئے بعض کہتے ہیں کہ ضروری ہے۔ جاریہ میں سب شوافع متفق ہیں کہ تغریب نہیں کیونکہ اس کے لئے تو تستر اور گھر میں رہنا مناسب ہے تغریب میں اور مفاسد کا اندیشہ ہے سو اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ حد نہیں ورنہ شوافع کا مصالح پر نظر کرنا بیجا ہوگا۔حد شرعی میں مصالح کالحاظ کرکے چھوڑنا کب جائز ہے؟عبید کی تغریب آنحضرت ﷺ نے بھی کبھی نہیں کی اس سے داخل حد نہ ہونا معلوم ہوتاہے ورنہ عبید پر ضرور آتی گو بجائے ایک سال کے نصف سال ہوتا۔
بعض شوافع نے کہا ہے کہ بیع امۃ قائم مقام نفی و تغریب کے ہوجاتی ہے لیکن یہ کوئی وجہ درست نہیں۔
باب الحدود کفارۃ
حنفیہ تو اس میں خود ڈھیلے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ کفارہ ہوجائیں۔ لیکن امام صاحب کا قول ہے کہ کفارات نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ کفارات ہیں یا نہیں؟ لیکن اس کے جواب دئیے گئے ہیں کہ وہاں عدم علم ہے اور یہاں آپ ﷺ اپنا علم وخبر بیان فرماتے ہیں پس معلوم ہوتاہے کہ امام صاحب کامطلب یہ ہے کہ ان کی وضع تکفیر معاصی کے لیے نہیںبلکہ زجر کی وجہ سے وضع ہوئے ہیں گو کفارئہ معاصی بھی ہوجائیں یا یوں کہاجائے کہ وہ کفارہ ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔ چنانچہ روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی گناہ کیا اور دنیا میں اس کی سزا پائی تو خدا تعالیٰ رحیم ہے اس سے کہ قیامت میں مکرر سزا دے اور جس پر دنیا میں ستر ہوا تو اللہ تعالیٰ اکرم ہے اس سے کہ قیامت میں ستر نہ کرے۔ اس تاویل سے اس روایت کی خاص تائید ہوتی ہے اظہار سے منع فرمانا اور ماعزہ وغیرہ سے اعراض کرنا شاہد ہے کہ یہ کفارات نہیں ورنہ اس کو جاری کرنا نہایت ضروری ہوتا۔ امام شافعی صاحب نے اس کوتو مانا کہ