آنحضرتﷺ بعد الطلوع کو فرمارہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بعد الفرض قبل الطلوع جائز نہیں۔
بابُ الاربع قبل الظہر
پہلے اسکا بیان گذر چکا ہے احادیث چار کی اور دو کی موجود ہیں معمول بہا اور سنن مؤکدہ امام صاحب ؒ چار کو کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے متعدد روایتیں اس بار ہ میں مروی ہیں۔ دو رکعتوں کو حنفیہ تحیۃ الوضو یا رکعتی الزوال پر محمول کرتے ہیں احادیث قولی بھی چارکی تائید کرتی ہیں۔ امام شافعی ؒ بھی چار کو قبل الظہر مانتے ہیں مگر وہ دوسلام سے کہتے ہیں۔ علاوہ دو مؤکدہ۔
باب الاربع قبل العصر
بالتسلیم الخ کے معنیٰ کہ تشہد پڑھتے صلٰوۃ مثنیٰ مثنیٰ کی تاویل و معنیٰ آئندہ مذکور ہونگے۔
باب الصلوٰۃ في البیت
اگرمکان میں زیادہ حضور وفراغت ہو تو وہاں پڑھے اور اگر وہاں احتمال مشغولی وشوروشغل ہوتو مسجدمیں پڑھنا اولیٰ ہے۔
باب ست رکعات بعد المغرب
ظاہریہ ہے کہ مع موکدہ آپ ﷺ چھ کے اجر کو بیان کرتے ہیں غرض سنت صرف چھ سے بھی اوراگر علاوہ موکدہ کے چھ چھ پڑھے۔ یعنی کل آٹھ پڑھے جب بھی دونوں صورتوں میں اداہوجائے گی۔
باب صلوٰۃاللیل مثنیٰ مثنیٰ
اس حدیث کے تینوںجملے مستقل حنفیہ کے مخالف اور بظاہر شافعیہ کے موافق ومستدل ہیں۔ مثنیٰ مثنیٰ فرمایا گیا ہے ا سے شوافع سلام علی الرکعتین سمجھتے ہیں ،حنفیہ کہتے ہیں کہ مثنیٰ مثنیٰ یہاں مقابل مفرد ووتر ہے یہ مطلب نہیںکہ ایک تحریمہ سے صرف دوہی رکعتیں ہوں چنانچہ اوتر بواحدۃ سے صاف ظاہر ہے کہ وہاں مثنیٰ بمقابلہ وتر فرمایا ہے یایوں کہئے کہ بیشک دو رکعتیں مراد ہیں لیکن ان کی فضیلت تو نہیں بیان فرماتے کہ چار سے افضل ہیں اور اگرا فضلیت بھی مرادہو تو ممکن ہے کہ آٹھ اورچھ بتحریمۃ واحدۃ سے افضل ہوں نہ کہ اربعۃ بتسلیمۃ واحد سے، یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں اس کی افضلیت بوجہ خاص ہو یعنی چونکہ وجوہ افضلیت مختلف ہوتے ہیں یہاں کسی وجہ خاص سے رکعتین بتسلیمۃ واحدۃ اولیٰ ہوں۔ باقی اصل فضیلت اور ثواب ابتداء تحریمہ وغیرہ کاچارمیں ہو جیسا کہتے ہیں کہ تراویح کو مثنیٰ مثنیٰ پڑھنا اولیٰ ہے اس وجہ سے کہ اس صورت میں سہولت للقوم ہے گو اصلی وذاتی فضل چار چار میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ کی صریح روایت یصلی أربعا فلا تسئل عن