اس سے ثابت ہوا کہ اگر بوقت ادا کچھ دین میں زیادہ کردے اور پہلے سے شرط نہ ہو تو یہ زیادتی جائز ہے۔ نسیئہ حیوان میں خلاف ہورہاہے امام صاحب بیع حیوان نسیئہ کو اوراستقراض حیوان کو منع فرماتے ہیں اور اصل خلاف حیوان کے من المثلیات اور ممایعین ہونے میں ہے پس یہ روایت منسوخ ہے بسبب روایت نہی عن استقراض الحیوان کے۔ کیونکہ اباحت وممانعت میں روایت نہی ومحرم کو مقدم سمجھتے ہیں کما بین فی الاصول ۔یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب ربوا بھی جائز تھا۔
باب البیع فی المسجد
معتکف کو مسجد میں بیع بلااحضار مبیع جائز ہے مسجد میں انشاد ضالہ کی ممانعت ہے اگر ضرورت ہو تو آہستہ دریافت کرلے یا جب لوگ مسجد سے باہر نکل آویں تب ان سے دریافت کرے۔ یا ممانعت صرف اس کی ہے کہ گم ہوئی کسی اور جگہ اور اجتماع ناس کی وجہ سے آسانی دیکھ کر مسجد میں اس کو دریافت کرتاہو۔
باب الاحکام
أن یرجع منہ کفافا۔ یہ معاملہ عدل وانصاف کاہے۔ باقی فضل خدا وندی سے جو مرتبہ حاصل ہوجائے وہ اس کا احسان ہے اس کا ذکر نہیں۔ پس یہ قول روایات قضا بالعدل کی بشارت کے معارض نہیں۔ ذبح بغیر سکین سے یا تو مبالغہ فی الایذاء مراد ہے یا ظاہر وواقعی معنیٰ کہ ذبح وہلاک ہوا مگر بغیر سکین کے۔ اگر کوئی شخص ایسا موقع دیکھے کہ اپنے علاوہ دوسروں کا ظلم یا بے علمی جانتا ہو اور ضرر عامہ خلائق ہو تو استدعاء قضاء جائز ہے ورنہ ہرگز نہیں اور ایسے ہی (میرے خیال میں) مدرسی گو آج کل کے مدرسین کا عمل اس پر نہیں۔ جو شخص سفارش یا رغبت فی القضا کرے اس کو قاضی نہ بنانا چاہئے۔ حدیث معاذ ؓ سے قیاس کا۔۔۔۔ حجت ہونا اور مرتبہ ثالث پر ہونا دونوں امرمعلوم ہوگئے، قاضی کو قضا اس غصہ میں منع ہے جبکہ تغیر عقل وزوال عقل کا اندیشہ ہو اور فہم مدعا میں خلل ہو۔ وإلا کسی ذرا سی بات خلاف طبع کے وقت منع نہیں۔
باب البینۃ للمدعی
پورا عمل تو اس پر حنفیہ کا ہے جو ہر جگہ اس کی رعایت کرتے ہیں۔ شوافع بھی عمل کرتے ہیں مگر بہت سی صورتوں میں تخصیص وغیرہ کرلیتے ہیں۔
باب قضی بیمین وشاہد
بعض ائمہ اس کو اموال وحقوق میںجائز فرماتے ہیں حدود میں یہ کافی نہیں ہوسکتی شوافع کا یہی مسلک ہے۔ حنفیہ اس کو جائز