جلسہ استراحت کو حنفیہ زمانہ ضعفِ آنحضرت ﷺ پر حمل کرتے ہیں اور اس طرح تعارض بھی نہیں رہتا ورنہ صریح موجود ہے ینھض علے صدور قدمیہ چنانچہ آئندہ روایت یہی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ زمین پر ہاتھ رکھکر سہارا لگا کر اٹھتے چنانچہ بعض نے اسی کو معمول بہا بنا یا ہے لیکن چونکہ اس قسم کی روایات صرف فعلی ہیں کوئی قولی نہیں پائی جاتی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے آخری زمانہ میں بوجہ ضعف ایسا کیا ہوگا۔
باب التشہد
کسی مجتہد نے کسی مناسبت سے کسی صحابی ؓ کا تشہد اختیار کیا اور کسی نے کسی کا ۔ بہت سے تشہد مروی ہیں۔ امام ؒ کو ایک خصوصیت ابن مسعود ؓسے لہٰذا اسی کو اختیار فرمایا اور نیز بہت سے علماء و صحابہ ؓ وتابعین ؒ نے اسی کو لیا ہے اور اسکو اصح تو خود ترمذی فرماتے ہیں تمام صحاح میں یہ روایت موجود ہے اور سب سے زیادہ صحیح ہے تمام روایات میں ایک زیر زبر کا بھی تو فرق نہیں۔
باب الجلوس فی التشہد
تورّک کو حنفیہ حالت کبر سن پر حمل کرتے ہیں اور یہی ظاہر ہے کیونکہ اس میں بھی کوئی حدیث قولی نہیں بلکہ وہ ذرا آرام کی صورت ہے لہٰذا آخر عمر ضعف کی ضرورت سے اختیار کیا۔ امام شافعی ؒ قعدہ اخیرہ میں تورّک کو مسنو ن فرماتے ہیں اور قعدہ اولیٰ میں نہیں کہتے مگر یہ تقسیم کسی روایت سے مستنبط نہیں معلوم ہوتی۔
باب رفع السبابۃ للاشارۃ
بلاشک وشبہ ثابت ہے اور امام ؒ کا یہی مذہب ہے جو لوگ منکر اور انحراف اصابع عن القبلۃ وغیرہ کا عذر پیش کرتے ہیں ، محققین حنفیہ انکو غصہ سے یاد کرتے ہیں۔ ابتدائے رفع سبابہ کی تعیین روایات سے نہیں پائی جاتی مگر ظاہر یہ ہے کہ اول ہی سے اٹھالے انتہاء کی بابت اشارات حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آخر تک بحالہ رکھے۔ فقہاء بھی بعض لکھتے ہیں کہ اوّل تشہد سے رفع سبابہ کرلے ۔ بعض کہتے ہیں کہ لاالٰہپر اٹھا دے اور الا اللّٰہ پر پست کرلے ہیئت رفع اور حلقہ کی تصریح ان روایات میں نہیںلیکن اور بعض روایات سے یہ دو ہیئتیں دریافت ہوتی ہیں ایک تو حلقہ وسطی وابہام یعنی خمس وخمسین کا اشارہ اور ایک یہ کہ ابہام کو ذرا دبالے اور بعض نے صرف سبابہ کا رفع لکھا ہے۔بلا حلقہ وغیرہ کے تاکہ انحراف عن القبلۃ نہ ہو وہذا لیس بشییٔ۔ معلوم نہیں رکوع میں وہ کیا حکم دینگے ۔ انحراف عن القبلۃ کی وجہ سے اخذ رکبتین چھوڑدینگے یا نہیں؟