کہتے ہیں اور بعض حضرات چھتیس اورجمہور بیس بیس سے کم کسی کا مذہب نہیں۔ ۴۱ اور ۳۶ کا کسی روایت سے پتہ نہیںلگتا البتہ بیس رکعت کی روایت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے گو اس کی تضعیف کی گئی ہے یہ تراویح ایک مستقل نماز ہے جو تہجد سے بالکل علیحدہ ہے چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے یے کبھی تمام شب نہیں بیدا ررہے اور یہاں حتی خفنا الفلاح فرمایا گیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ یہ تہجد سے جدا نماز ہے۔ البتہ تہجد کا اس کے ساتھ اور اس کے ضمن میں ادا ہوجانا وہ ایسا ہے جیسا عید پڑھنے سے صلوٰۃ ضحی ادا ہوجائے یا تحیۃ المسجد بہ ضمن تحیۃ الوضوء ادا ہوجائے لیکن یہ کوئی عاقل نہ کہے گا کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہیں کما مرسابقا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین شب تراویح پڑھی ہے پھر بخوف فرضیت وشفقت علی الامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح نہ پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ علیحدہ علیحدہ پڑھتے رہے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت میں بھی اور حضرت عمر کی خلافت کے شروع میں بھی۔ اس کے بعد حضرت عمر ودیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی صلاح سے سب مصلی ایک قاری کے پیچھے جمع کردئیے گئے۔ اس پر بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے پس اس کو بدعت کہنا صریح غلط فہمی ہے۔ بیس رکعت وجماعت میں شوافع بھی حنفیہ کے موافق ہیں البتہ جو شخص خود قاری ہو اس کو وہ علیحدہ پڑھنے کے لیے بھی فرماتے ہیں۔( آج کل کے اہل حدیث نے علاوہ رکعتوں کی تعداد میں خلاف کرنے کے جماعت وتراویح ہی کو مکروہ قرار دیدیا ہے۔راقم)
ابواب الحج
فلاعلیہ أن یموت الخ: یعنی جب اس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے تویہودی اور نصرانی ہوجانے میں کیا مضائقہ ہے؟ جیسا پہلے گزرا ہے کہ اگر غیبت وغیرہ کو نہ چھوڑا تو کھانا بھی کیوں نہیں کھالیتا؟ آیت سے استشہاد اس طرح ہوسکتا ہے کہ آخرتک آیت پڑھی جائے یعنی ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین اس میں بجائے من لم یحج کے من کفر فرمایا گیا گویا حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا بخاری تو ایسا بہت جگہ کرتے ہیں کہ شروع آیت لکھ دیتے ہیں اورمحل استہشاد آگے ہوتاہے لوقلت لوجبت