باب الحنطۃ بالحنطۃ
حنفیہ اور جمہور اس پر ہیں کہ اتحاد جنس کے وقت تفاضل ونسیہ ہر دوحرام۔اختلاف میں تفاضل ممنوع ہے۔ دلیل ان کی بعض روایات ہیں جن میں مطلق تفاضل کی نہی ہے۔ ابن عباس ؓ واسامہ ؓ وغیرہم وسعت فرماتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اختلاف جنس کے وقت تفاضل ونسیہ ہر دو جائز ہیں مگر صرف میںجمہور علماء اس طرف ہیں کہ نسیۃ جائز نہیں۔
باب البیع بعد التابیر
امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خواہ ثمر قابل انتفاع اور قریب پختگی کے ہو یا نہ مطلقا درخت کے تابع نہ ہوگا۔ بلکہ بائع کے واسطے ہوگا بعض کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو کہ اس سے انتفاع ہوسکتا ہے اور بادی الصلاح ہے تو بائع کا ہوگا ورنہ درخت کے تابع ہوکر بیع میں آجائے گا۔
باب البیعان بالخیار
أو یختارا کے ایک تو یہ معنی ہیں کہ بیع کے بعد مشتری سے بائع کہے کہ اختر الثمن أو المبیع اور مشتری کہے اخترت المبیع (یا اس کا عکس ہو یعنی مشتری کہے اور بائع جواب دے) بس اس تکرار عقد سے بھی تاکید ہوجاتی ہے اور اختیار باقی نہیں رہتا۔ یا مراد ہے خیار شرط۔ کہ بیع کے بعد مجلس تک اختیار محدود تھا۔ اب اگر وہ متفرق ہوگئے تو اختیار باطل، ہاں اگر شرط کرلیا تو اختیار بعد المجلس بھی باقی۔ غرض تفرق اورخیار سے حال سابق بدل جاتاہے بعض روایات کی وجہ سے یختارا کے پہلے معنی قوی معلوم ہوتے ہیں ، حنفیہ کہتے ہیں کہ تفرق سے بالاقوال مراد ہے اور شوافع بالابدان کہتے ہیں اورخیار مجلس ثابت کرتے ہیں اس تفرق کے معنی ہی پر مدار ہے۔ ترمذی حضرت ابن عمر ؓ کے فعل کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ الراوی اعلم بمراد الروایت۔ یہ قاعدہ تو سب کامسلمہ ہے لیکن حنفیہ کی طرف سے منسوب ومشہور ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر تفرق بالابدان مرادلیاجائے تو قواعد کلیہ کے صریح مخالف ہوگا کیونکہ ایجاب وقبول کے بعد تمام عقود پورے اورکامل ہوجاتے ہوں چنانچہ اجارہ اعارہ وغیرہ میں شوافع بھی موافق ہیں پس اس جزئی کو قواعد کلیہ کے موافق بنانا چاہئے نہ بالعکس۔ باقی رہے ابن عمر ؓ ممکن ہے کہ وہ دوسرے متعاقد کے جھگڑے سے بچنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہوں کیونکہ ممکن تھا کہ وہ ظاہرحدیث کو پیش کرکے بیع فسخ کرنا چاہتا۔ پھر ابن عمرؓ کو دلیل وحجت سے کام لیناپڑتا۔ انہوں نے پہلے ہی سے ایسا طریقہ کیا کہ مخالف کو الزام ہوجائے۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ کی روایت کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں کیونکہ اس کو تو شوافع بھی نہیں مانتے کہ اگر متعاقدین ایک کشتی میں ہوں تو وہاں ہمیشہ اختیار باقی رہتاہے کیا وہ متعاقدین حوائج ضروری اور اور نماز وغیرہ کے لئے بھی جدانہ ہوئے ہوں گے۔ پس اس کے معنی پہلے اپنے مذہب کے موافق بنالیں پھر حنفیہ کے