نہیں کہتے اور شاہدین کو ضروری کہتے ہیں۔ اس طرف بھی روایت ہے اس طرف بھی شافعی نے کسی وجہ سے اسے اختیار کیا۔ امام نے روایت شاہدین کو اس لیے کہ اول تو وہ روایت قاعدہ کلیہ ہے کہ البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر بخلاف اس کے یہ ایک امر جزئی ہے۔ دوسرے یہ وایت اس روایت سے بہت اقویٰ واصح ہے ،متعدد روایات سے کلیہ سمجھا جاتاہے حتی کہ اس روایت کو متواتر بھی کہا گیا ہے۔ اور اس فعل جزئی کی تاویل ہوسکتی ہے کہ مدعی کے ایک بینہ قائم کرنے کے بعد آپ ﷺ نے یمین مدعا علیہ لی۔ اور پھر حکم فرمایا پس یہ قضا بیمین وشاہد ہوئی۔ مگر اور روایت کے بعض لفظ اس تاویل کے موافق نہیں اور ممکن ہے کہ راوی بیان واقعہ کرتے ہوں قضا کے مبنی سے بحث نہ ہو ۔ پس انہوں نے دیکھا کہ مدعی نے ایک بینہ پیش کیا تھا اور اپنی تصدیق کے لیے بلا طلب قسم بھی کھائی تھی۔ آپ ﷺ نے پھر مدعی علیہ سے قسم کو کہامگر اس نے نکول کیا۔ پس آپ ﷺ نے حق مدعی میں فیصلہ فرمایا۔ راوی بیان فرمایا کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یمین وشاہد پر فیصلہ کیا کیونکہ ظاہر میں یہی باعث فیصلہ تھا لیکن واقع میں مبنیٰ قضا کا انکار مدعی علیہ تھا۔ یا اس طرح ہوا ہو کہ مدعی نے ایک بینہ پیش کیا آپ ﷺ نے دوسرا بھی طلب فرمایا تو مدعی نے حلف کرلیا تاکہ یہ قائم مقام ہوجائے مگر آپ ﷺ نے اس کو کافی نہ سمجھ کر مدعا علیہ سے یمین کو فرمایا اس نے نکول کیا اور فیصلہ حق مدعی میں رہا۔ راوی نے جیسا دیکھا تھا بیان واقعہ کردیا۔
باب عتق المشترک
اس باب میں ابن عمر ؓ کی روایت اور ابوہریرہ ؓ کی روایت میں نزاع ہورہاہے اس سے ثابت ہوتاہے کہ حالت غناء میں صرف ضمان ہے اور کسی حالت میں کچھ نہیں بلکہ عبد علی حالہٖ باقی رہے گا۔ اس سے ثابت ہے کہ حالت غنا میں ضمان اور عسر میں سعایت۔ ا س بارہ میں بہت سے اقوال ہیں امام صاحب کا علیحدہ قول ہے کہ حالت یسر میں یا آزاد کردے یا ضمان یا سعی ۔ اور حالت اعسار میں صرف اعتاق شریک آخر یا سعی۔ محدثین واہل ظاہرکا قول علیحدہ ہے کہ ابن عمر ؓ کی روایت کے موافق حالت یسر میں صرف ضمان اور عسر میں بقا علی حالہ۔ جمہور ائمہ اور صاحبین کا جد اقول ہے کہ خواہ شریک موسر ہو یا معسر۔ تمام اسی وقت آزاد ہوجاتاہے اس کے بعد شریک آخر خواہ آزاد کردے یا سعی وضمان سے اپنا حق لے ۔ امام شافعی کے دو قول ہیں ایک تو جمہو رکے موافق اور ایک یہ کہ موسر میں تمام آزاد ہوتاہے اور معسر میں صرف نصف۔ روایتیں ہر قسم کی پکی ہیں۔ شوافع واہل ظاہر کو یہاں تک دقت ہوئی کہ شوافع کو کہنا پڑا کہ ابن عمرؓ کی روایت میں والا فقد عتق منہ ماعتق کی زیادتی غیر صحیح ہے اور ظاہریہ کو کہتے بن پڑا کہ ذکر سعی روایت ابی ہریرہ ؓ میں صحیح نہیں۔ مگر یہ ہر دو قول درست نہیں کیونکہ ایک زیادتی جب روایات میں ثابت ہوگئی پھر بعض روایات میں اس کا ذکر نہ ہونا مخل بالصحہ نہیں اور نہ موجب