یتوب فیہ علی قوم آخرین آج تک واقعہ کربلا کے سوا کوئی مصداق اس کا معلوم نہیں ہوا اسی کی طرف اشارہ منظورہوا۔ اکثروں کی یہ رائے ہے کہ مذکور فی ہذہ الروایۃ فضل یوم عاشوراء ہے نہ مطلق صوم محرم قل ماکان یفطر یوم الجمعۃ یعنی ادھر یا ادھر ایک ملاکر۔ پس یہ اس کے منافی نہ ہوگا جونہی وارد ہے کیونکہ نہی وممانعت انفرادا صوم جمعہ کی آئی ہے غرض یہ ہے کہ یوم کی کوئی خصوصیت نہ سمجھ کر روزہ رکھے۔ سبت والاثنین الخ عادت شریف یہ تھی کہ کبھی شنبہ ، یکشنبہ دوشنبہ کو اور کبھی سہ شنبہ چہار شنبہ پنجشنبہ کو کبھی ایام بیض میں کبھی ابتدائے شہرمیں۔ غرض کوئی صورت معین نہ تھی۔ غرہ کل شہر سے مراد ایام بیض ہیں یا ابتدائے شہر۔ صوم جمعہ کی سنیت کے جمہور قائل ہیں۔ کراہت جب ہے کہ انفرادا جملہ ہی کاہو۔ صوم یوم عرفہ عرفات میں اس کے لیے جائز ہے جو قوت رکھتا ہو اور دوسرے افعال میںحرج نہ آوے مگر اولیٰ نہیں۔ چنانچہ ابن عمر کے قول لااصوم الخ سے معلوم ہوتاہے۔
باب العاشوراء
اب فرض نہیں اگر رکھے تو ثواب بے حساب پاوے۔ نہ رکھے تو کچھ مواخذہ نہیں۔ عندالجمہور عاشورا دسویں تاریخ ہے ابن عباس کی پہلی روایت صرف کیفیت صوم بتلانے کی غرض سے ہے ورنہ ان کی اگلی دو روایتوں کو چھوڑناپڑے گا ہاں اگر اس روایت کو بیان کیفیت صوم کے لیے کہاجائے (کما ہوالظاہر) تو ایک روایت سے یوم العاشر صاف ظاہر ہے۔
باب صیام العشر
احادیث قولی سے سنیت صیام معلوم ہوگی۔ باقی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صوم کا یا تو حضر ت عائشہ کو علم نہ ہوا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہی نہ ہو۔ مگر اس سے سنیت ہونے میںکچھ فرق نہیں آتا۔ علماء نے کہا ہے کہ ایام ذی الحجہ افضل الایام ہیں اور لیالی رمضان افضل اللیالی ہیں۔ لان فیہا لیلۃ القدر التی ہی خیر من ألف شہر۔
باب صوم شوال
جس طرح چاہے شوال میں چھ پورے کردے۔ سال بھر کا ثواب اس حساب سے مل جاوے گا کہ تیس دن کا ثواب دس مہینہ کے برابر لان الحسنۃ بعشر امثالہا اورچھ روزے بجائے ساٹھ کے علی ہذا القیاس کل تین سو ساٹھ ہوگئے۔
باب ثلث من کل شہر
صوم دہر کا ثواب اس لیے کہ الحسنۃ بعشر امثالہا پس تین دہائی تیس ۔ گویا ہرمہینہ میں تیس تیس روزے رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صوم کی تعیین نہ تھی حسب کیفیات مذکورہ فی الروایات کبھی کسی طرح اور کبھی کسی طرح صائم رہتے کما