مقضی کے مقابلے سے معلوم ہوتاہے کہ عاریت میں قضا وضمان نہیں ہوگی بلکہ ادا ہوسکتی ہے اور ادا کہتے ہیں ادائے عین ماوجب کو نہ کہ ادائے مثل کو۔ شافعی عاریت میں ضمان واجب فرماتے ہیں امام صاحب کے نزدیک واجب نہیں مگرجبکہ مستعیر کی تعدی سے ہلاک ہو۔ امام صاحب اس کو امانت سمجھتے ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ حسن بھول گئے لیکن معلوم ہوتاہے کہ حسن حدیث کو نہیں بھولے بلکہ ان کا مذہب وہ تھا جو امام صاحب کا ہے یعنی ادائے امانت کے تو قائل تھے مگر ضمان کو واجب نہ فرماتے تھے اور حدیث سے ضمان ثابت ہی نہیں۔
باب الاحتکار
احتکار اقوات میں ممنوع ہے جبکہ لوگوں کوضرورت ہو اور اس کے احتکار کی وجہ سے ضرر ہوتا ہو۔
باب اذا اختلف البیعان
ظاہر یہ ہے کہ روایت میں اختلاف متعاقدین سے مراد اختلاف فی مقدار الثمن ہے مثلا بائع کہتاہے کہ میں نے دس روپیہ کو فروخت کی اور مشتری کہتاہے کہ میں نے پانچ روپیہ کوخریدی ہے چنانچہ امام احمد کے جواب سے اختلاف فی الثمن ہی معلوم ہوتاہے ۔ ظاہر الروایت پر شوافع کا عمل ہے وہ بائع کے قول کا اعتبار کرتے ہیں اور مشتری کو اختیار دیتے ہیں خواہ اس کے قول پر راضی ہو کر بیع برقرار رکھے یا فسخ کرادے اگر راضی نہ ہو تو حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ قاعدہ عام نہیں بلکہ یہ صرف جب ہے کہ اختلاف ہو اور سلعہ قائم ہو اس صورت میں تحالف کراکر فسخ کاحکم دیاجائے گا۔ چنانچہ ایک روایت میں والسلعۃ قائمۃ کی شرط بھی ہے۔
باب
پانی کی بیع نہیں چاہئے کیونکہ وہ مملوک نہیں ہوتا البتہ مظروف میں لے آنے سے مملوک ہوجائے گا ایسے ہی گھاس وغیرہ بحسب العمل پر کرامت قبول کرنا جائز ہے کما فی الروایت۔
باب بیع کلب
کو بعض نے جائز رکھا ہے اور ممانعت کو ابتدائے ایام پر حمل کیا ہے جبکہ قتل کلاب کاحکم ہوگیا تھا۔ یا تنزہ پر حمل کیاجائے اور جواز ہی مذہب ہے امام ابوحنیفہ کا۔ امام صاحب کلب صید اور غیر صید اور جملہ بہائم وسباع کی بیع جائز فرماتے ہیں، ہرہ کی منفعت سے خالی بیع کو پسند نہیں فرمایا۔ کسب حجام کی ممانعت یا منسوخ ہے یا تنزہ پر حمل کیاجائے بالاتفاق۔ چنانچہ آپ ﷺ کا اجرت عطا فرمانا اور ایک صحابی کے جواب میں اطعمہ رقیقک فرمانا حلت پر دال ہیں۔