ہے لزوجک علی حق الخ کیونکہ ایام خمسہ میں افطار کرلینے سے حق زوج ادا نہیں ہوجاتا حالانکہ شوافع اس میں کراہت نہیں مانتے۔ پس معلوم ہوا کہ صوم تمام سال علاوہ ایام خمسہ منہی عنہا کے بھی بہتر نہیں اور صوم دہر سے وہی مراد ہے۔غرض صوم دہر عندالامام بہتر نہیںجائز ہے۔لاصام من صام ولا افطریا توخبر بمعنی نہی ہے۔ اس طرز پر تو صریح ممانعت ہوگی۔ یانفی ہے تو بھی غیر پسندیدہ ہے لاصام ولا افطر اس لیے کہ وہ تو عادی ہوگیا۔ افضل صوم صوم داؤد ہے کہ ایک روزہ رکھے ایک روز افطار کرے۔ لا یفراذا لا فتی سے اشارہ ہے کہ وہ ایسے قوی تھے کہ باوجود صوم کے بھی کاروبار میں اور عبادت وجہاد میں فرق نہیں آتا تھا۔ پس اس سے تم بھی قیاس کرلو کہ جس میں اس قدر طاقت ہو وہ روزہ رکھے ورنہ یہ اچھا نہیں کہ دیگر افعال میں فرق وخلل واقع ہو۔ عبداللہ بن عمر و بن العاص کے والد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ وہ صوم بہت رکھتے ہیں ورایات میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور سمجھایا اور ہر ماہ میں صرف تین روزصائم رہنے کی اجازت دی پھر انہوں نے عرض ومعروض کرکے صوم داؤد تک کی اجازت حاصل کرلی اورجوانی میں اس پر عامل رہے لیکن بعد وفات سرورکائنات(صلی اللہ علیہ وسلم) جب عبداللہ بوڑھے ہوگئے تو یہ روزے مشکل ہوئے وہ افسوس کرتے تھے کہ میں نے اس حکیم امت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کو قبول کیوں نہ کرلیا اور اب اس عبادت میںکمی کرنے کو دل نہیں چاہتا جس کا اقرار باصرار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرچکا ہوں۔آخر کو بوجہ مجبوری پندرہ روز صائم رہتے اورپندرہ روز افطا کرتے تاکہ حساب بھی پورا ہوتارہے اور ایک طرح کی تخفیف بھی رہے۔ غرض صوم داؤد مشکل بھی ہے اور قوت کاکام ہے کہ اس میں نہ صوم کی عادت ہوئی نہ افطار کی اس سے یہ آسان ہے کہ دس روز روزہ رکھے اور دس روز افطا کرلے۔
باب العید والتشریق
عید میں بالاتفاق روزہ حرام ہے۔ ایام تشریق میںشوافع تخصیص کرتے ہیں کہ متمتع وقارن فاقدالہدیٰ نے اگر قبل التشریق صوم ثلٰثۃ ایام پورے نہ کئے ہوں تو ایام تشریق میں رکھے۔ وبہ قال مالک۔ اور امام صاحب کے نزدیک اگر عرفہ تک نہ پورے کئے تو ہدی متعین ہوجائے گی غرض وہ تشریق میں بھی مطلقا ناجائز کہتے ہیں۔
باب الحجامت
جمہور کے نزدیک حجامت سے افطار نہیں ہوتا افطر الحاجم والمحجوم یا منسوخ ہے یا قرب افطار مرادہے۔ یعنی محجوم بوجہ ضعف کے اور حاجم بوجہ وصول دم وغیرہ کے حلق میں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ خطا سے بھی روزہ افطار ہوجاتاہے کیونکہ حاجم کے حلق میں خطاء پہنچے گا نہ کہ عمدا وناسیا۔ بعض اصحاب کے نزدیک حجامت فی اللیل کرانے سے حجامت