غرض کچھ ہو یہ حدیث ان احادیث کا جواب ہوسکتی ہے۔ چنانچہ امام صاحب ؒ اور امام اوزاعی کا قصہ مناظرہ دربارہ رفع یدین مشہور ہے۔ پس رفع یدین کو منسوخ کہنا بھی درست ہوسکتا ہے حنفیہ نے لا ترفع الایدی الا فی سبع مواطن سے استدلال کیا ہے ۔ باقی أذناب خیلٍ کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارہ میں ہے کہ صحابہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید بھی کرتے تھے آپ ﷺ نے اسکو منع فرمادیا ۔ یہ ضروری ہے کہ رفع یدین میں بھی اور بعض جزئیات کی طرح فرق وتغیر ہوا۔ لیکن ایسے امور میں تغیر دو طرح ہوا ہے ایک اس طرح کہ ابتداء میں تشددہو اور بعد کو توسع ہوگیا جیسا کہ دربارہ کلاب ہوا ہے کہ پہلے تو ولوغ کلب سے غسل سبع مرات کا حکم تھا اور تمام کلاب کے قتل کا امر فرمادیا تھا حتیٰ کہ حائظہ صغیرہ [چھوٹ باغ یعنی باغیچہ]کا کلب بھی سلامت نہ رہتا تھا۔ آخر کو آپ ﷺ نے تخفیف کردی اور حفاظت کا کلب جائز فرمادیا اور تین مرتبہ دھونے سے حکم طہارت فرمایاگیا ۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اوّل توسع ہو اورپھر تنگی ہوجائے رفیع یدین میں بھی اسی طرح ہوا ہے کہ پہلے تو ہر موقع پر رفع یدین تھا۔ رفتہ رفتہ بعض مواضع سے منع ہوگیا۔ چنانچہ بین السجدتین تک امام شافعی ؒ و امام صاحب ؒ ساتھ رہے۔ البتہ رکوع اور رفع من الرکوع میں اختلاف ہوگیا پس جو جواب شوافع دربارہ ترک رفع بین السجدتین دیں گے وہی ہم یہاں دینگے کیونکہ لا یرفع بین السجدتین کی زیادتی اور روایات میں نہیںانصاف سے دیکھئے تو احادیث وآثار اور عمل صحابہؓ و تابعین ؒ دونوں طرف موجود ہیں جس مجتہد کو کوئی وجہ ترجیح کی کسی طرف معلوم ہوئی اس نے اسی کو معمول بہا بنالیا۔ اگرچہ جملہ ائمہ سب رواۃ کی حدیث کو لیتے ہیں۔ لیکن بعض کو بعض سے خاص مناسبت اور انس ہوتا ہے ایسے ہی امام صاحب ؒ نے ابنِ مسعود ؓ کی روایت کو ترجیح کے ساتھ قبول کیا کیونکہ امام کا فقہ اکثران سے ماخوذ ہے اور درجہ اجتہاد میں انکی خاص شان تھی امام شافعی ؒ اکثر مسائل حضرت ابنِ عباس ؓ سے لیتے ہیں۔ اور امام مالک ؒ کو ابنِ عمر ؓ سے خصوصیت ہے۔ غرض ایک کو دوسرے پر طعن کرنا ہرگز درست نہیں۔ قول رسولﷺ ہر طرف موجود ہے مجتہدین کی رائے اور وجہ ترجیح علیٰحدہ ہے۔
باب تسبیح الرکوع والسجود
یعنی تین مرتبہ کہنا کمال رکوع کا ادنی درجہ ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ادنیٰ رکوع تو صر ف ایک دفعہ کہدینے سے بھی حاصل ہوجاتا ہے یا اس قدر ٹھہرنے سے۔
باب النہی عن القراء ۃ فی الرکوع والسجود
یہ اس لئے کہ ہر ایک رُکن کے لئے ایک خاص ذکر معین ہے اسکو چھوڑنا یا اسکے ساتھ دوسرا ذکر مِلانا بہتر نہیں بلکہ مکروہ ہے