فرس،لیکن کوئی شے پانچ سودرہم سے کم قیمت کی نہ ہونی چاہئے۔
باب لایقتل مسلم بکافر
حنفیہ اس حکم سے ذمیوں کی تخصیص کرتے ہیں اور ان کے قتل سے قصاص کو واجب فرماتے ہیں کیونکہ دمائہم کدمائنا فرمایا گیا ہے۔ نیز لہم مالنا وعلیہم ماعلینا حنفیہ کا مستدل ہے تمام ذمیوںکا ایک حکم ہے خواہ نصرانی ہو یا یہودی۔ اور تمام حربوں کا ایک حکم ہے یعنی قصاص نہ آئے گا ۔ اگر کوئی مستامن جدید ہوکہ اب تک پورے شروط اس سے طے نہیں ہوئے تھے اس کی دیت اگر نصف لی جائے تو جائز ہے۔
باب قتل عبدٍ
اس میں تین روایات ہیں ایک یہ کہ مطلقا قصاص آتاہے خواہ اپنا عبد ہو یا دوسرے کا دوسرے یہ کہ مطلقا قصاص نہیں۔ امام صاحب بین بین ہیں کہ اپنے مملوک کے قتل سے قصاص نہیں ہے، عبد غیر کے قتل میں قصاص ہے۔ باقی روایت میں من قتل عبدہ قتلناہ سے یا تو سیاست وزجر مراد ہے کہ ہم سیاسۃ ایسا کریں گے یا اضافت عبد مجازی ہے جیسے من فتیاتکم المومنات۔
باب القسامۃ
شافعی ظاہر حدیث کی طرف گئے ہیں اور البینۃ للمدعی سے اسکو مستثنیٰ مانتے ہیں امام صاحب کے نزدیک اولیاء پر قسم نہیں۔ان کی مؤید بعض روایات بخاری میں ہیں ایک سے مدعا علیہم کاحلف دلاناثابت ہوتاہے پس ان روایات کے سبب اورادھر قاعدہ کلیہ کی رعایت یعنی البینۃ للمدعی الخ کی وجہ سے امام صاحب نے اس روایت کو چھوڑدیا۔ وہ ابتداء سے اس قاعدہ کو اس طرح لئے ہوئے کہ ہرجگہ اس کی رعایت ملحوظ رکھتے ہیں۔امور جزئیہ کا دوسری طرح جواب دے لیتے ہیں۔بعض روایات میں ہے کہ قسامۃ کا طرز جاہلیت سے اسی طرح چلا آتا تھا اور آپ ﷺ نے اس میں تغیر نہیں فرمایا۔ اس مسئلہ میں ایک یہ بھی خلاف ہے کہ مدعا علیہم کی قسم کے بعد کیا واجب ہوگا۔ امام صاحب دیت فرماتے ہیں۔ امام شافعی کے دو قول ہیں قصاص ودیت۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ قسم کے بعد بری ہوجائیں لیکن حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں یہ جھگڑا پیش ہوچکا ہے۔ حالفین نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ہم قسم بھی کھائیںاور دیت بھی دیں مگر آخر ان سے دیت لی گئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی مجلس میں مسئلہ قسامت پر علماء کا مباحثہ ہوا۔اکثر علماء نے اس قول کو ترجیح دی جس کو امام شافعی لئے ہوئے ہیں، ابوقلابہ خاموش تھے خلیفہ نے فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے خوب تقریر کی کہ سب مان گئے اور کہا کہ ایسا شخص جب تک موجود رہے گا تم بخیر رہوگے اور ابوقلابہ وہی فرمارہے تھے جو امام صاحب کہتے ہیں۔ اس تابعین