استدلال کرتے ہیں جو صریح ہے۔ شافعی ایک اقرار کو کافی کہتے ہیں اور اسی سے استدلال کرتے ہیں کہ انیس کو فرمایا کہ جاؤ اگر عورت اقرار کرلے تو فارجمہا۔ یہاں چار اقرار کی تصریح نہیں۔ حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ مراد اقرار متعارف ہے جو چار دفعہ سے کم نہ ہوتاتھا۔ لیکن انصاف سے اس جواب کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اتنے اشارات موجود ہیں کہ اگر چار اقرار کہیں سے کنایۃ بھی ثابت ہوتے تو اس کو لینا ضرور تھا۔ اب باوجود کثرت شواہد وصراحت روایت ایک اشارہ سے اس کے خلاف پر استدلال کرنا ٹھیک نہیں۔ دیکھئے اول تو فادرؤوا الحدود ہی سے اس جانب کو تقویت ہوتی ہے۔ پھر حضرت ماعز ؓ کے قصہ کے اکثر جزئیات اسی کے موید ہیں۔ ماعز کے اقرار کے بعد بوقت رجم بھاگنا جو بالبداہت شدت الم کی وجہ سے تھا اس کو آپ ﷺ رجوع عن الاقرار پر حمل فرماتے ہیں جو بہت بعید ہے اور ہلا ترکتموہ فرماتے ہیں بلکہ بعض روایات میں ہے کہ میرے پاس کیوں نہ واپس لے آئے وغیر ذلک من الجزئیات مشیر ہیں کہ اقرار میں تغلیظ اورحتی الوسع چشم پوشی منظور ہے۔ پھر اب صریح وایت کو چھوڑ کر ایک محض اشارہ سے استدلال درست نہیں۔
باب الرجم
جمہور کے نزدیک حمل موجب حد نہیں۔ شراح اس کا جواب دیتے ہیں کہ منسوخ ہے یا یوں کہاجائے کہ علامات زنا میں سے یہ ہر سہ امور ہیںیعنی حبل،اقرار، بینہ گو وجوب حدود میں بعض کافی نہ ہوں ، قاعدہ شرعیہ بھی یہی ہے کہ بینہ ہوں یا اقرار۔ اور وہ روایات جو آپ ﷺ کے چشم پوشی کرنے اور معاملہ کو ٹلانے پر دال ہیں اس روایت کے لئے ناسخ ہوسکتی ہیں۔ أغد یا أنیس اس میں شبہ ہوتاہے کہ حدود میں تحقیق کرنا پہلی روایات اغماض کے خلاف ہے جواب یہ ہے کہ معترف بالزنا (یا اس قصہ خاص میں معترف بالزنا کا باپ) گویا عورت مزینہ کو قذف کررہاہے لہٰذا اب تحقیق ضرور ہے کہ قاذف سچ کہتاہے یانہیں اگر کاذب ہوا تو الٹی اس پر حد آئیگی اور عورت بچ جائے گی۔
باب رجم اہل کتاب
اس میں اتفاق ہے رجم محصن پر ہے شروط احصان میں سے بعض میں اتفاق ہے اور شرط اسلام میں اختلاف ہے۔ پس جو لوگ احصان کے لئے اسلام بھی شرط کرتے ہیں ان کے نزدیک تو اہل کتاب محصن نہیں ہوسکتے لہٰذا رجم نہ ہوگا۔ جو یہ شرط نہیں لگاتے وہ رجم کرتے ہیں۔ شوافع شرط حریت کو تو مانتے ہیں مگر اسلام کی شرط نہیں فرماتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ جس رجم کا ذکر روایت میں ہے وہ بحکم تورات ہواتھا نہ بحکم آنحضرت ﷺ۔ چنانچہ پورا قصہ اس کا شاہد ہے۔ اکثر علماء اور شوافع رجم اہل کتاب کے قائل ہیں۔
باب التغریب