أو تنویع وتردید کے لئے ہے یعنی حسب عادت جمع سے مراد صوری جمع ہے آپ ﷺ نے جو سامرک بامرین الخ فرمایا مطلب اس سے یہ ہے کہ اگر دونوں پر قادر ہو تو جونسا امر تجھ کو بہتر معلوم ہو وہ کرنا۔ چونکہ مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اشخاص کو ایک غسل بھی مشکل ہوتا ہے اور بعض کو دوچار بھی آسان اس لئے آپ ﷺ کوفَاِنْ قَوَ یْتِ الخ کہنے کی نوبت و حاجت ہوئی ورنہ ظاہر ہے کہ جمع بغسلِ واحد آسان ہے ۔ امرین میں سے ایک امر مذکور ہے اور ایک امر غسل لکل صلٰوۃ ہے جو راوی نے ذکر نہیں کیا۔ دیگر روایت میں آتا ہے مذہب امام یہی ہے کہ خواہ معتاد ہو مبتد یہ صرف وضوء کافی اور غسل مستحب واولیٰ ہے۔ آنجناب ﷺ نے نظافۃً یا دوائً ہر نماز کے لئے غسل کا حکم فرمایا۔ اس مذہب پر نہ کسی روایت کو چھوڑنا پڑا ہے نہ ام حبیبہ ؓ کی حدیث میں فَعَلْتُہ ھِیَکہنا پڑتا ہے بلکہ تمام روایات اپنے محل پر قابلِ عمل ہیں۔
باب وضوء مستحاضۃ لکل صلٰوۃ
امام شافعی ؒ ہر نماز کے لئے وضوء ضروری کہتے ہیں اور حنفیہ وقت کے لئے ۔ کیونکہ لامؔ بمعنے وقت مستعمل ہے چنانچہ دوسری روایت میں وقت کا لفظ بھی ہے بمعنے وقت ہو یا نہ ہو کسی قدر تخصیص تو امام شافعی ؒ بھی ضرورکریں گے کس لئے کہ نوافل وسنن کو تبعًا جائز کہتے ہیں۔ پس حنفیہ فرائضِ قضا شدہ کوبھی تبعًا جائز کہیں گے۔
باب وطی الحائض
فقد کفر کو یا تو تشدید و تغلیظ پر حمل کریں یا ظاہر پر رہنے دیں اور بہتر وہی ہے کفر دون کفرسمجھا جائے۔ چنانچہ بخاری نے یہی طرز اختیار کیا ہے۔
باب کفارۃ اتیان الحائض
اس کفار ہ کا منکر کوئی نہیں لیکن کلام اس میں ہے کہ کس قسم کا کفارہ ہے پس بعض حضرات نے واجب کہا ہے مثل دیگر کفارات کے لیکن اکثر اہلِ علم کی رائے ہے کہ یہ کفارہ برائے اطفارئے غضب الربّ ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ الصدقۃ تطفیٔ غضب الربّ اسی طرح یہاں بوجہ معصیت جو غصہ خداوندی تھا اسکے اطفاء کے لئے یہ کفارہ ہے واجب نہیں ۔ پس اب نصف دینار اور ایک دینار کی روایت میں تطبیق دینے کی ضرورت نہ رہی کیونکہ واجب تو ہے نہیں۔ حسبِ توفیق دیدے۔
باب الوضوء من الموطی
لا نتوضاء سے وضوء شرعی مراد ہو تو معنی بہت ہی بے تکلف ہیں کیونکہمشی علٰے نجس سے وضوء شرعی ہرگز لازم نہیں ہوتا اگر