حسنہن وطولہن موجود ہے ۔امام صاحب ؒ کے مذہب کے بعد عمدہ وراجح مذہب شوافع کا ہے جودن اور رات میں مثنیٰ مثنیٰ کہتے ہیں کیونکہ ایک روایت میں صلوٰۃ اللیل والنہارمثنیٰ مثنیٰ بھی آیاہے باقی تفریق لیل ونہارکامذہب اس سے کم درجہ پرہے۔
دوسرا جملہ أوتر بواحدۃ ہے شافعیہ کہتے ہیں کہ وتر ایک ہے کیونکہ آپ بواحدۃ فرماتے ہیں حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ معنی ہیں کہ ایک کوملاکر دو کو وتر کرلو، کیونکہ حقیقت میں وتر تو ایک ہی ہوتاہے مجموعہ کو بھی اس کی وجہ سے وتر کہتے ہیں،پانچ اورسات یہ سب ایک کی وجہ سے وتر ہیں نہ فی نفسہ۔ پس آپ ﷺ کافرمانادرست ہے کہ ایک کوملاکر دوکووتر کرلو حاصل یہ ہے کہ جب صبح قریب ہوتو تین کی ایک کو اور دو میں ایک ملاکروتر کرو۔ صح الخ: حنفیہ نے یہ بھی جواب دیاہے کہ یہ منسوخ ہے لانہ علیہ السلام نہی عن البتیرۃ لیکن اس تاویل کے بعد منسوخ کہنے کی حاجت نہیں۔ دیگر احادیث کی وجہ سے شوافع کویہ تو ماننا پڑا کہ وتر تین ہیں پس وہ تین ہی رکعت پڑھتے ہیں مگر دو سلام سے لیکن اس طرح پڑھنے کو شافعیہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کرسکتے بعد الوتر کی دو رکعتوں کو بوجہ اس جملہ کے شافعیہ اولیٰ نہیں سمجھتے ہیں۔
اجعل اٰخر صلوتک وترا: امام صاحب ؒ رکعتین بعد الوتر کومستحب کہتے ہیں مستدل حنفیہ بعض روایات ہیں جو ترمذی میں بھی آئی ہیں شوافع اس کو بیان جواز پرحمل کرتے ہیں اس جملہ کا جواب حنفیہ دیتے ہیں کہ آخر صلوٰۃ سے مراد صلوٰۃ واجبہ ہے یعنی صلوٰۃفرض وواجب میں سب سے آخر وتر کو کرو اب نوافل کا اس کے بعد پڑھنامحل اخرویت نہیں ہے اگر فاذا خفت کے ساتھ اس کو مقیدکریں توبلاتکلف معنی ہیں کہ بوجہ خوف فجر کے وترپڑھ لو۔ گو دو نفل رہ جائیں پس خوف میں وتر آخری نماز ہوئی اور بلاخوف صحیح نفل بھی پڑھ لو۔(ہذا ماخطر بی ولااعتماد علیہ واتم)
باب فضل صلوٰۃ اللیل
صلوٰۃ اللیل سے چونکہ تہجد مراد ہوتاہے لہٰذا سائل کے جواب میں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ تہجد رمضان وغیررمضان میں برابر تھا۔اس سے تراویح کی نفی نہیں نکلتی کیونکہ وہ صلوٰۃ مستقلہ علیحدہ ہے عرفا اس کو صلوٰۃ لیل نہیںکہتے۔ محدثین اور فقہاء اسکوتہجد کے علاوہ مستقل باب میں بیان کرتے ہیں اس کوتہجد کے ساتھ متحدمانناسراسر غلطی ہے گو بعض صورتوں میں تہجد بھی ان کے ضمن میں اداہوجاوے لیکن اس سے اتحادلازم نہیں آتا۔دیکھئے تحیۃ المسجد پڑھنے سے تحیۃ الوضو ادا ہوجاتاہے اوراس کا عکس بھی لیکن ان دونوں نمازوں کوکوئی متحد نہ کہے گا۔ اسی طرح اگر کسوف بوقت چاشت واقع ہو تو دوچار رکعت بہ نیت کسوف صلوٰۃ ضحیٰ ادا ہوجائے گی لیکن اتحاد کاکوئی قائل نہیں، اسی طرح اگر آپ نے تمام شب تروایح میں گزاردی تو تہجد ادا ہوگیا لیکن ان کااتحادہرگزلازم نہیںآتا۔ آپ ﷺ کا رات کوبھی چار چارپڑھنا اس حدیث سے