نظر کرنے سے قران ہی افضل معلوم ہوتاہے ہاں جمہور شوافع وامام شافعی افراد کو افضل کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت چونکہ دیگر روایات کے معارض ہے تو اگر متعارض روایات سے قطع نظر کرلی جائے تب بھی قران کے لئے دیگر روایات دلیل وحجت ہوسکتی ہیں اور اگرحدیث عائشہ کو ساقط نہ کیاجائے تو افراد الحج کیمعنیٰ یہ ہونگے کہ أمر الناس بالافراد( أيأجاز لہم وأباح لہم) قارن کے لئے چونکہ تینوں طرح تلبیہ درست ہے لہٰذا جب آپﷺنے حجۃٍ فرما یا تو لوگوں نے آپ ﷺ کو مفرد سمجھا اور جب حجۃٍ وعمرۃٍ فرمایا تو قارن اور جب عمرۃٍفرمایا تب متمتع سمجھا ۔ جن روایات سے تمتع ثابت ہوتا ہے حنفیہ انکی تاویل کرسکتے ہیں کہ تمتع لغوی مراد ہے ۔کیونکہ دوسری روایت سے قران ثابت ہے ۔ پس اگر تمتع سے مراد تمتع لغوی لینا بعید بھی تھا تب بھی تطبیق روایات کی غرض سے وہی لینا پڑتا البتہ شوافع کے مطابق وہ روایتیں کسی طرح نہیں ہوسکتیں جن سے تمتع معلوم ہوتا ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت لبیک بحجۃ وعمرۃ سے بھی قران ثابت ہے حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے متعدد دفع حج کئے ہیں کبھی افراد بھی کرلیا ہوگا۔ تمتع کو منع کرنا اسلئے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ جائز نہیں یا اچھا نہیں کیونکہ علماء بالاتفاق حسنٌ حسنٌ کہتے ہیں۔ یو ں معلوم ہوتا ہے کہ تمتع سے اس غرض سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ صرف ایک ہی دفعہ مکہ آکر بس نہ کردیں بلکہ کم ازکم مکہ کے لئے دو سفر تو کریں ایک میں حج ہو اور ایک میں عمرہ ۔ یہ نہ ہو کہ ایک دفعہ ایک ہی سفر میں سرسے ٹال دیں اور پھر رُخ نہ کریں۔ باقی اصل فضیلت اور آپﷺکا فعل قران میں ہے، یا اس تمتع سے منع کرتے تھے جو نقض حج کرکے کیا جائے جیسا آنحضرت ﷺ کے ساتھ صحابہ ؓنے کیا کہ آپﷺنے حج کا احرام نقص کراکر عمرہ کا احرام کرادیا تاکہ اُن لوگوں کے گمان سے یہ بات نکل جائے کہ اس وقت میں عمرہ اکبر کبائر سے ہے آپ ﷺنے ایک ضرورت دینی کی غرض سے کیا تھا۔ اسکو اب شیخین نے منع فرمایا چنانچہ جمہور کا یہی مذہب ہے کہ نقض حج اب جائز نہیں وہ آپ ﷺکی خصوصیت اور اسوقت کی مصلحت تھی۔ پس شیخین نے فی نفسہٖ مطلق تمتع کو منع نہیں فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو کسی خاص مصلحت کی وجہ سے منع کردیا جائے سب اوّل منع کرنے والے معاویہؓ نہ تھے بلکہ شیخیںرضی اللہ عنہما تھے۔
باب لبس المحرم
عورت کے لئے قفازین کی حنفیہ اجازت دیتے ہیں کیونکہ وجہ انکی ممانعت کی معلوم نہیں ہوتی اگر مخیط ہونا علت ممانعت سمجھا جائے تو عورت کو تمام مخیط کپڑوں کی اجازت ہے اور اگر بدن کا پوشیدہ ہونا علتِ ممانعت سمجھا جائے تو ہاتھوں کو کھلا رکھنا تو عورتوں پر ضروری نہیں۔ نہی کو استحباب پر حمل کریں گے۔ اگر سروایلؔ کے سوا کچھ اور نہ ملے تب تین قول ہیں: ایک یہ کہ ظاہر حدیث کے موافق سراویل پہن لے کیونکہ ممانعت اس کے لئے ہے جسکو غیر مخیط میّسر ہو باقی خفین کے