شوافع کا استدلال درست نہیں کیونکہ ان سے آپﷺنے دریافت فرمایا کہ ہدی لائے ہو یا نہیں چونکہ وہ ہدی لائے تھے آپﷺنے قران کرادیا۔ اگر نہ لاتے تو شاید آپﷺاور قسم کا احرام کرادیتے غرض محرم کو اختیار ہوتا ہے۔ چنانچہ ابوموسیٰ اشعریؓ نے بھی اسی طرح نیت کی وہ بھی یمن سے حاضر ہوئے تو آپﷺنے ہدی کو پوچھا چونکہ وہ نہ لائے تھے آپﷺنے افراد کرادیاکہ عمرہ کرکے حلال ہوجاؤچنانچہ وہ اپنے احرام للحج وغیرہ کا قصہ بیان کرتے ہیں اگرتعلیق احرام سے تعیین ہوجایا کرتی تو آنحضرتﷺ چونکہ قارن تھے لہٰذا ان سے بھی قران کرانا لازمی ہوتا اور کسی نہ کسی طرح ہدی کا سامان کرنا پڑتا۔
باب الحج الاکبر
حج اکبر تو حج ہے اور حج اصغر عمرہ ہے وہذا بالاتفاق۔ خلاف اس میں ہے کہ یوم حج اکبر کونسا ہے۔ پس بعض نے یوم نحر کو کہا ہے۔ کیونکہ بہت سے مناسک اسی دن میں ادا ہوتے ہیں۔ رمی۔ وذبح وطواف وحلق اور بعض نے یوم عرفہ کو کہا ہے کیونکہ رکن اعلیٰ یعنی وقوف عرفات اسی روز ہوتا ہے ۔ اگر رکنین کے پاس اژدحام ہو تو اشارہ بالید کرکے آگے بڑھ جاوے مدافعت نہ کرے۔ ابن عمرؓ بھی مدافعت نہ کرتے تھے بلکہ ٹھہرے رہتے تھے جب اژدحام رفع ہوجاتا تب استلام وغیرہ کرتے ۔ اگر کرنا ہوتو اس طرح کرے اور یہی اولیٰ ہے۔ البتہ مدافعت ممنوع ہے۔
(وقد تم کتاب الحج بحمداللّہ تعالیٰ ونشرع فیما یتعلق بکتاب الجنائز بعونہ)
کِتَابُ الجَنَائِز
ابوب الجنائز
الوصیۃ قبل از آیت میراث چونکہ وصیت فرض تھی یا تو اس لئے تاکید ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ امر استحباب کے لئے ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اگر کوئی شے قابل وصیت ہوتو اس حالت میں وصیت واجب ہے۔ مثلاً کوئی بڑا معاملہ دار آدمی ہے یا کوئی ایسی چیز چھوڑتا ہے جس میں نزاع کا خوف ہے یادیون و امانت بہت سی رکھتا ہے۔ پس جس کے لئے کوئی ایسی شے ہو کہ جس میں وصیت ضروری ہو تاکید اس کے لئے ہے نہ عموماً۔وصیت ثلث سے زیادہ میں جاری ہی نہ ہوگی۔ اگر ثلث