کیفیت غسل سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مس ذکر سے وضوء نہیں جاتا۔ کیونکہ یہ احتیاط و شرط کہیں مذکور نہیں کہ غسل میں بعد وضوء مسّ ذکر کی نوبت نہ آئے اور یہ کہنا ذرا بعید ہے کہ آپ خیال رکھتے ہونگے (یعنی بعد وضو مَسِّ ذکر سے بچنے کا اہتمام کرتے ہونگے)
باب وجد بلۃً ولا یذکر احتلامًا
قول اہل علم من الصحابہ و سفیان ؒ کے قول اور بعض اہلِ علم من التابعین میں اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ بموجب قول صحابہ تو جب بلۃً میں شبہہ ہو کہ من النطفہ ہے یا غیر تو واجب ہے اور تابعین کے قول کے مطابق بلا یقین نطفہ غسل واجب نہیں۔
باب المذی یصیب الثوب
نضح کے معنیٰ یہاں غسل خفیف کے ہیں یعنی ذرا سا پانی لیکر دھو ڈالو، کیونکہ اس میں زیادہ غلظت نہ ہوگی۔ نضح کے معنیٰ شافعی ؒ نے بھی اس موقع پر یہی لئے اور اس سے پہلے بول غلام میں معنے نہ لئے اور امام صاحب ؒ کے مخالف رہے۔
المنی یصیب الثوب:
چونکہ آپ ﷺ نے غسلؔ یا فرکؔ کرایا ہے اور کبھی ثابت نہیں کہ بلا احد الاشیاء کے ثوب ملوث ہی سے آپ ﷺ نے نماز ادا کی ہو اس لئے حنفیہ وجمہور نجاست کے قائل ہیں امام شافعی ؒ طاہر فرماتے ہیں لیکن ہم حنفیہ قول ابن عباس ؓ کا یہی جواب دیں گے کہ وہ صحابی کی ایک رائے ہے۔
باب الجنب ینام قبل الغسل
حدیث عائشہ ؓ کے ایک تو یہی معنیٰ ہیں کہ آپ ﷺ نے احیانًا بیان جواز کے لئے ایسا کیا تاکہ لوگوں کو زیادہ آسانی ہوجائے ۔ البتہ عادت شریف نوم بلا وضوء واستنجا یا غسل کی نہ تھی۔ اور ایک معنی لم یمس مائً کے یہ ہیں کہ ماء خاص مراد ہو یعنی آپ ﷺ نے غسل نہ فرمایا گو وضوء کرلیا ہو۔
باب المستحاضۃ
مذاہب ائمہ تو مشہور ہیں لیکن اس حدیث سے اتنا تو ضرور معلوم ہوگیا کہ دمِ عرق ناقضِ وضوء ہے پس دمِ فصد بھی دمِ عرق ہے اس سے کیوں نقض وضو نہ ہوگا؟
باب جمع الصلٰوتین بغسل للمستحاضۃ