نجس۔ پس اسی طرح واجب کہ عدم قطعیت دلیل سے واجب ہوگیا ورنہ یا فرض تھا یا درجہ استحباب و سنت میں یا کوئی مستقل اور براسہٖ علیٰحدہ قسم ہے اہل اصول کے بیان سے تو بعینہٖ مشکوک کے مانند معلوم ہوتا ہے۔ یہ تعریفات ہرگز پوری اور درست نہیں۔ کیونکہ نص قطعی اور دلیل صریح سے تو بعض مستحبات و سنن بھی ثابت ہیں چاہیے کہ وہ بھی فرض ہوجائیں اور چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے حق میں کوئی چیز واجب نہ رہے کیونکہ آپ ﷺ کو کسی شے کی فرضیت و استحباب میں شبہ نہ تھاپھر آپ ﷺ نے بعض دفعہ اسی واجب کے ترک پر جس پر امام صاحب ؒ سجدہ سہو کراتے ہیں کس واسطے سجدہ سہو کیا؟ اور یہ تعریف کہ منکر کافر ہو یا نہ ہو یہ بھی درست نہیں کیونکہ بعض فرائض کا منکر کا فر نہیں ہوتا پس چاہیے کہ وہ سب واجب ہوجائیں حالانکہ انکے ترک سے بطلان عمل کا حکم امام صاحب ؒ بھی فرماتے ہیں۔ مثلاً امام صاحب ؒ خروج بصنع المصلی کی فرضیت کے قائل ہیں اور اسکے ترک سے بطلان صلوٰۃ کا حکم فرماتے ہیں لیکن منکر کو کافر نہیں کہتے کیونکہ فرض عملہ ہے کہ اعتقادی ورنہ صاحبین جو اسکی فرضیت کے قائل نہیں معاذ اللہ قابل تکفیر ٹھیرں معلوم ہوتا ہے کہ فرض عملی اور واجب کی تعریف میں خلط ہوگیا ہے۔ لیکن امام صاحب ؒ کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوگا جو اصولی سمجھے کیونکہ امام صاحب ؒ جب ہی جمہور کا خلاف کرتے ہیں جب کوئی دقیق و نفیس بات سمجھ لیتے ہیں پس واجب انکے نزدیک کوئی مستقل اور علیٰحدہ قسم ضروری ہوگی۔ فرض عملی اور اعتقادی کے فرق کو دیکھنے سے اور پھر ہمارے علماء کے فرض عملی اور واجب میں فرق کرنے اور انکی دو قسمیں علیٰحدہ لکھنے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واجب کوئی دوسری مستقل شے ہے اور امام صاحب ؒ کے یہاں تو مطلق ذکر اللہ سے فرضِ تکبیر ادا ہوجاتا ہے اور امام شافعی ؒ صرف اللہ اکبر اور اللہ الاکبر سے درست کہتے ہیں اور کسی ذکر کو کافی نہیں سمجھتے ۔ امام صاحب ؒ کا استدلال یا تو وہی آیۃ ہے کہ ذکر اسم ربہ فصلیٰ اس میں مطلق ذکر فرمایا گیا ہے یا تکبیر کو معنیٰ مصدری پر حمل کیا جائے۔
باب نشر الاصابع
امام صاحب ؒ صرف سجدہ میں ملانے اور متصل کرنے کو اور رکوع میں کشادہ کرکے اخذ رکبتین کو مسنون کہتے ہیں۔ اور سب حالتوں میں اپنی معمولی حالت پر رہنے دیں۔ رفع یدین مدًا سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ اذنین تک رفع یدین کرتے ہونگے ورنہ رفع الی المنکب پر مدًا صادق نہ ہوگا۔
باب ترک الجہر ببسملۃ
اس باب کی حدیث میں تو جواب درکار نہیں یہ خود مؤید حنفیہ ہے البتہ حدیث جہر کا جواب یہ ہے کہ یفتتح کے معنیٰ یہ نہیں کہ افتتاح جہرًا کرتے تھے شروع تو بیشک بسم اللہ سے کرتے تھے مگر جہر الحمد سے کرتے تھے حدیث کی تضعیف خود ترمذی