کرلی ہوگی درست ہوگیا اور شوافع کا اس پر یہ اعتراض نہ رہا کہ مہاجر کو قیام بیش از ثلٰثۃ ایام منع ہے۔ پھر حضرت عثمانؓ کیسے اقامت کی نیت فرماسکتے تھے کیونکہ معلوم ہوگیا کہ ممانعت قیام زائد از حاجت کی ہے۔
باب موت المحرم
عند الحنفیہ وہی معاملہ کیا جائے جو دیگر اموات کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ روایت کا واقعہ جزیٔ خاص ہے ۔ صرف انہیں کے لئے یہ حکم تھا۔ چنانچہ آپﷺکا فرمانا کہ فانہ یُبْعَثُ مُلَبیًا اسی پر دال ہے۔ جنائز کے بارہ میں جو احادیث وارد ہیں وہ تو قواعد کلیہ ہیں اسکی وجہ سے ان میں تخصیص نہیں ہوسکتی۔ ادھر یہ قاعدہ مسلم ہے کہ کوئی عبادت موت کے مستمر نہیں رہتی۔ دیکھو اگر کوئی سجد میں مرجاوے تو یہ نہیں ہوگا کہ اسی حالت میں قبر میں رکھا جاوے ۔ شوافع کو دو تغیر کرنے پڑے۔ ایک یہ کہ اسی قصہ جزی کو کلیہ بنایا اور پھر اس جزیٔ حکم کی وجہ سے عموماً جنائز کے حکم کلی کی تخصیص کی۔
امام صاحب نہ تغیر کرتے ہیں نہ تخصیص نہ قیاس اور فی الحقیقت قیاس سے امام صاحب کسی شدید ضرورت ہی میں کام لیتے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ کے صاحبزادے کی وفات حالتِ احرام میں ہوئی تو انہوں نے وہی معمولی جنائز کا طریقہ کیا۔ اور فرمایا کہ اگر ہم محرم نہ ہوتے تو خوشبو بھی لگادیتے (لڑکے کے حج میں حنفیہ کو کچھ شبہ ہو تو ہو مگر شوافع کے نزدیک تو کچھ شبہ ہی نہیں) اور حنفیہ کا قیاس بھی درست ہوسکتا ہے۔ کہ المرء اذا مات انقطع عملہ محدثین نے فرمادیا ہے کہ شوافع کا اس جزیٔ پر قیاس کرنا درست نہیں اور اگر سب جگہ جزئیات پر ہی قیاس ہوا کرے تو آنحضرت ﷺ نے جو حضرت حمزہؓ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ مجھ کو یہ پسند تھا کہ انکو دفن نہ کرتا تاکہ یہ بطون عوانی (یعنی جانور ان درندہ مثل گرگ وکرگس) سے مبعوث ہوتے لیکن انکی ہمشیرہ کے رنج کا خیال ہے۔ پس آپﷺکی مرضی اور پسندیدگی پر قیاس کرکے اور شہداء کو بھی اسی طرح کرنا چاہیے تاکہ بطون عوانی سے مبعوث ہوں۔
باب الرخصۃ للرعاۃ
امام صاحب اور اکثر فقہاء مجتہدین یہی کہتے ہیں کہ جمع کرنا مؤخر کرکے جائز ہے۔ مثلاً یوم نحر میں رمی کرکے پھر بارہویں کو کریں۔ البتہ رخصت اور جواز جمع میں سب کا اتفاق ہے ۔ اب صورت وطریقہ جمع میں خلاف ہے۔
باب الاحرام بنیّۃ الغیر
اگر دوسرے کے احرام پر احرام باندھا تو محرم باتفاق ہوجائیگا اسمیں خلاف ہے کہ اسکا احرام کس قسم کا ہوگا۔ شوافع فرماتے ہیں کہ جس طرح کا احرام اس دوسرے شخص کا ہوگا ویسا ہی اسکا ہوجائیگا لومفردًا مفردا ولو قارنًا قارنًا لو متمتعًامتمتعا اور حدیث علیؓ کو مستدل کہتے ہیں۔حنفیہ اسکو مختار کہتے ہیں کہ جونسی قسم کا احرام چاہے اختیار کرلے۔ حدیث علیؓ سے