صوم میں مسواک عندالحنفیہ والشافعیہ جائز ہے۔ لیکن یہ قول اس کے مخالف ہے جو حنفیہ نے کتب شوافع سے نقل کیا ہے کہ عندالشافعی بعدالزوال مسواک صوم میں مکروہ ہے معلوم ہوتاہے کہ امام شافعی صاحب سے اس بارہ میںدو روایتیں ہوں گی یا نقل مذہب میںغلطی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہرایک ایسے موقع میں اسی قسم کا جواب دیاجاتاہے۔ لیکن کراہت تنزیہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ وجہ اس کراہت کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے زوال رائحہ ہوتاہے جو محبوب عنداللہ تھی۔ سرمہ لگانا بلاکراہت جائز ہے۔ قبلہ اور مساس بھی اس کو جائز ہے جس کو اپنے نفس پر وثوق ہو اور اگر مفضی الی الجماع ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں مکروہ ہے۔
باب لا صیام لمن لم یعزم من اللیل
فقہاء کہتے ہیں کہ یہ حکم بعض صیام کا ہے امام شافعی ادائے صوم رمضان میں نیت باللیل ضروری فرماتے ہیں، امام صاحب نصف النہار شرعی تک جائز فرماتے ہیں، امام وجمہور کے مؤید وہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشوراء میں منادی سے نداء کرادی کہ جس نے اب تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزہ رکھے اور جو کھاپی چکا ہو وہ بھی شام تک امساک کرے اب کچھ نہ کھاوے پیوے اور اس وقت صوم عاشوراء فرض تھا(گو شوافع اس کا انکار کرتے ہیں مگر دلائل سے بوضاحت ثابت ہوتاہے) غرض فرض کی نیت دن میں جائز ہوئی۔ نیز رمضان معیار صوم ہے نہ صرف صوم کما فی الاصول۔ باقی یہ روایت جمہور پر حجت نہیں ہوسکتی کیونکہ عندالشوافع بھی مخصوص البعض ہے صوم تطوع میں بالاتفاق رات کو بھی اور دن کو چاشت تک نیت جائز ہے۔ قضاء رمضان ونذر مطلق میں بالاتفاق رات سے نیت ضروری ہے۔ البتہ نذر معین میں امام کے نزدیک دن میں بھی نیت درست ہے۔
باب صوم تطوع
جوروایتیں ا س بارہ میں آتی ہیں ان سے یہ کہیں نہیں ثابت ہوتا کہ قضا نہیں آتی باقی رہی نفی اثم اس کے حنفیہ بھی قائل ہیں کہ گناہ نہیں ہوتا۔ وجوب قضا کی روایت عنقریب آتی ہے یصوم شہرین متتابعین [یہ عبارت اس باب کی نہیں اس کا تعلق ’’باب فی وصال شعبان رمضان ‘‘کے ساتھ ہے۔]کی وہی تفسیر ہے جو ابن المبارک سے منقول ہے۔
باب صیام آخر شعبان
نہی شفقتا للعباد ہے۔ یا صوم لحال رمضان سے منع فرمایا ہے۔
ابواب