لوگوں کو اوپرا معلوم ہو اور نیا سمجھا جائے اور انگشت نما بن جائے چنانچہ امام مالک نے اپنے زمانہ میں ثوب صوف کو مکروہ فرمایا اس لیے کہ لوگ وہاں کے صاحب وسعت تھے پس جو کوئی صوف پہنتا تھا وہ غایت درجہ ذلیل وانگشت نما ہوتا یا زاہد سمجھا جاتا۔ ایسے ہی خف واحد پر خواہ مخواہ نظریں پڑتی ہیں گو حقارت ہی سے سہی مگر انگشت نمائی ہوتی ہے اگر کوئی برہنہ پا ہو تو کوئی خیال بھی نہیں کرتا۔ پس ممانعت اس وجہ سے فرمائی گئی ہے۔
(کذا قال استاذی العلام فی درس شمائل النبویۃ للترمذی)
کھڑے ہوکر جوتا پہننے کو شفقۃ منع فرمایا یہ جب ہے کہ کھڑے ہوکر پہننے میں کچھ اندیشہ ہو۔’’دوقبال‘‘ ظاہر یہ ہے کہ دوخف میں دو قبال ہونگے یا یہ مطلب ہے کہ ہر ایک میں دودو تھے۔ بال گوندھنا مردوں کو جائز ہے۔ مگر اس طرح گوندھے کہ تشبہ بالنساء نہ ہو۔
باب
اگر عمامہ بطور عرب کے ہو تو بلا ٹوپی کے نماز مکروہ ہوگی کیونکہ سرکھلا رہے گا۔ اگر دوسری طرز پر ہو کہ تمام سر ڈھک جائے اور درمیان سے کھلا نہ رہے تو مکروہ نہیں کھڑی ٹوپی جائز ہے۔ مصارعت اس لیے کی گئی کہ انہوںنے آپ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ اگر میں مصروع ہوگیا تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ حق پر ہیں غرض آپ ﷺ غالب آئے اور یہ معجزہ ہوگیا اور رکا نہ اسلام لے آئے۔
باب خاتم الحدید
عندالحنفیہ خاتم حدید نہ مرد کو جائز ہے نہ عورت کو اور نہ پیتل کی۔ جو لوگ جواز کے قائل ہیں وہ فالتمس ولوخاتما من حدید سے استدلال کرتے ہیں۔ اگر لوہے یا پیتل کی انگوٹھی پر چاندی کاملمع کرالیاجائے اس کا استعمال بالاتفاق جائز ہے۔ باقی ظروف پیتل کو استعمال کرنا فقہاء جائز فرماتے ہیں کیونکہ حضرت حفصہ ؓ کے تورِ صفر سے وضو فرمایا تھا جناب رسول اللہ ﷺ نے۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین فقط۔
تم بحمداﷲ تعالیٰ مایتعلق عن المسودات بجلد الأول من الترمذی وفرغت عن نقلہ فی ۱۴ ربیع الثانی ۱۳۲۱ھ۔