یہ کوئی نہ سمجھے گا کہ یہ بحق تولیت ہے بلکہ تقسیم للوراثت سمجھی جائے گی پس اس سے لوگ شبہ میں پڑیں گے۔لہٰذا فرمایا کہ اگر چاہو تو اسی طرح دونوں بالاشتراک متولی رہو ورنہ میں تو پہلے بھی اس کا انتظام کرتاتھا اب بھی کروں گا۔(فلیحفظ الفرق بین مجیئۃ فاطمۃ ومجیئتہما فی زمن عمر)
باب الطیرۃ
قولہ مامناالخ یعنی ایسی شے ہے کہ دل میں تو سب کے خیال آجاتاہے ،ولکن اللہ لیکن اپنے توکل کی وجہ سے مسلمان اس پر کاربند نہیں ہوتے۔ البتہ فال کو آپ ﷺ نے پسند فرمایا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ طیرہ میں تو گویا اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہونا ہے اور حکم یہ ہے کہ حسن ظن باللہ چاہئے کہ وہ ہمارے لئے بہتر کرے گا پس اگر موثر بھی نہ سمجھے تب بھی بڑی وجہ ممانعت کی یہ ہوسکتی ہے اور فال میں چونکہ حسن ظن باللہ ہے لہٰذا پسند ہے۔
باب اغبرت فی سبیل اﷲ
کلام صحابی سے معلوم ہوا کہ وہ مشی الی الجمعہ کو بھی اس میں داخل فرماتے ہیں پس سبیل اللہ کے بہت سے افراد ومصداق ہیں اعلیٰ ان میں سے جہاد ہے۔ شباب فی الاسلام یعنی دین کے کاموں میں عمر گزاردی۔
باب الرمی فی سبیل اﷲ
ممد سے مراد یا تو یہ ہے کہ اپنا مملوک تیر لاکر غازی کو دے کہ آپ اس سے جہاد کریں یا وہ شخص جو ترکش میں سے نکال نکال کربوقت حرب وقتال دیتا جائے۔
فضل الشہداء: کی روایت میں چار قسمیں ذکر کی ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ درجہ علم درجہ عمل سے اعلیٰ ہے کیونکہ عالم غیر عامل کو درجہ دوم میں رکھا ہے اور عامل غیر عالم کو سوم درجہ میں۔
تفلی رأسہ: اورجگہ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کے سر مبارک میں سپس (قمل) نہیں تھی مگر تفلی سے یہ ضرور نہیں کہ ان کو قمل مل ہی جاتی ہو۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ تفلی کے معنی ہیں بالوں کو چیر چیر کر دیکھنا عام ہے کہ گردوغبار دیکھنا ہو یا کپڑا، جانور، قمل وغیرہ۔ اب اکثر چونکہ قمل دیکھا کرتے ہیں لہٰذا تفلی سے اسی طرف خیال وذہن جاتاہے (یہ ظاہر ہے کہ اگرسرمیں خون نہ ہو تب بھی سر کو اس طرح دیکھنے میں ایک طرح کا آرام آتاہے) ان کے دابہ پر سے گرنے کا واقعہ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں ہوا ہے کیونکہ غزوۃ البحر اول انہیں کے وقت میں ہوا تھا۔ البتہ دوسرا واقعہ امیر معاویہ ؓ کی خلافت میں ہوا تھا۔ پس اول واقعہ میں فی زمن معاویۃ ؓ سے مراد ان کی سرداری کا زمانہ ہے جب وہ فوج کے سردار تھے۔ البتہ دوسرے واقعہ میں وہ خود خلیفہ تھے اور سردار فوج یزید پلید تھا۔ آنحضرت ﷺ کے وقت میں ام حرام عبادہ کے