عقلاً مرغوب ہے کہ اسکو پیتے ہیں ایسے ہی موت کو گو طبیعت انسانی مکروہ سمجھے لیکن وہ چونکہ لقاء اللہ کا واسطہ وذریعہ ہے لہٰذا عقلاً اسکو ہر مومن دوست رکھتا ہے۔ اسی بناء پر محققین اعلام کہتے ہیں کہ صدیقین کو رغبت وتمنیٔ موت ہوتی ہے۔
باب قاتل نفس
قاتل نفس اور صاحب دَین پرر زجرا نماز نہ پڑھی در صورت مال نہ چھوڑ جانے کے۔ جو حنفیہ ضمان صحیح نہیں کہتے اسکا یہ مطلب ہے کہ ایسی صورت میں ضمان واجب ولازم نہیں ہوتا۔ جائز اور درست ہونا دوسری بات ہے وہ مسلم ہے۔
باب موت یوم الجمعۃ
مقتضائے رحمت تو یہ ہے کہ عذاب بالکل معاف ہے اور بعض کا قول یہ بھی ہے کہ صرف جمعہ کے روز ملتوی رہتا ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کہا جائے کہ بیشک یوم جمعہ میں ذاتی برکت اتنی ہے کہ عذاب کو بالکل معاف کرادے۔ اب دوسرے امور آکر اگر اسکے اصلی اثر میں کمی کردیں یا روک دیں تو وہ دوسری بات ہے۔ کثر ت سے ایسے موقع ہیں جن میں معاصی اور حسنات کا اثر بیان کیا گیا ہے وہاں اسی طرح سمجھ لینا چاہیئے۔ اس سے بہت سے نزاع واشکال رفع ہوسکتے ہیں۔ مثلاً معتزلہ کہتے ہیں کہ بس زنا کیا اور اسلام سے خارج ہوا۔ وہاں بھی کہدیا جائیگا کہ واقعی اسکا اصلی اثر تو یہی تھا لیکن دیگر موانعات نے تخفیف کردی یا اثر روک دیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ادویہ مفردہ کی خاص خاص تاثیریں بارد۔حار۔ رطب۔ یا بس ہوتی ہیں لیکن مجموعہ کا مزاج سب سے علیٰحدہ ہوتا ہے۔ بہیدانہ گو بارد ہے لیکن اگر سقمونیا یا اور گرم دوائیں ہمراہ ہونگی تو اور ہی مزاج ہوگا۔ اب اگر کوئی فہم کا پورا صرف بہیدانہ خیال کرکے نسخہ کے مزاج کو بارد کہدے یہ اسکی غلطی ہوگی۔ عاقل تو دیکھے گاکہ کتنے درجہ برودت تھی اور کتنے درجہ حرارت آئی اور اب مزاج کیا باقی رہا بعینہٖ اسی طرح اعمال نامئہ بنی آدم تمام حسنات وسیئات سے بھرا ہوا ہوگا وہاں ہر ایک حسنہ وسیئہ کا مزاج علیٰحدہ علیٰحدہ لیکر فیصلہ نہ کیا جائیگا بلکہ مجموعہ سے جو نتیجہ حاصل ہوگا اسکے موافق فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ واما من ثقلت واما من خفت اس پر دال ہے گویانامئہ اعمال ایک نسخہ ہے اور حسنات ادویہ مختلفہ المزاج حار وبارد ہیں مجموعہ سے جو مزاج حاصل ہوگا حسبِ قاعدہ وہ مدار جنت ودوزخ ٹھہریگا۔ ہاں باری تعالیٰ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی ایسے کی مغفرت فرمائے جس کے نامئہ اعمال کا مزاج قابل نار ہو یا اسکا عکس کرے۔(وھذا أحسن الکلام فی ھٰذا المقام)
ابوب ا النکاح
امام صاحب نکاح کو شغل فی النوافل سے بہتر کہتے ہیں۔ امام شافعی نکاح کو منجملہ عبادات نہیں سمجھتے اور شغل فی النوافل کو بہتر کہتے ہیں۔ تبتل کو آپﷺنے پسند نہیں فرمایا اگر ضرورت دینی کی وجہ سے تاخیر فی النکاح کرے تو درست ہے ۔