کو دینا گویا ہبہ بالعوض ہے پس اس کا لوٹانا جائز نہیں باقی حدیث میں جو رجوع کا جواز ہے وہ رجوع فی الہبہ نہیں بلکہ رجوع فی الموہوب لہ ہے جو بطرز آخر اس کے پاس آسکتاہے۔ اسی کو رجوع فرمایا گیا ہے۔
باب العرایا
شافعی واحمد واسحق رحمہم اللہ تعالیٰ نے جو محاقلہ ومزابنہ کو تو ممنوع سمجھا اور عرایا کو اس میں داخل کرکے پھر استثناء مانتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ عریہ بھی اور بیوع کی طرح حقیقۃ بیع ہے اور محاقلہ ومزابنہ کی ممانعت اس کو بھی مشتمل تھی لیکن اب اس اجازت کی وجہ سے اس نہی کی تخصیص کرتے ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بیع نہیں بلکہ صورۃ بیع ہے۔ واقع میں ایک شے ہبہ کرکے ضرورتا اس کو واپس لے لیا اور دوسری شے عطا کردی کیونکہ یہ مبادلہ یا بیع اسی ضرورت سے کرادیا گیا ہے کہ فقراء کو فوری رزق مل جائے اور ایک دو درخت کی حفاظت کے لیے حیران ہونا نہ پڑے اور ملاک کا ان کی وقت بے وقت آمدورفت سے حرج بھی نہ ہو پس خرص اور اندازہ سے مبادلہ کرادیا گیا۔ اس صورت میں محاقلہ ومزابنہ کی نفی بحالہا اپنے عموم پر رہے گی تخصیص کی حاجت نہ ہوگی اور عرایا ایک علیحدہ شے ہوگی اور اس کا استثناء مزابنہ سے اس قسم کا ہوگا جیسا الا ابلیس کا استثناء ملائکہ سے کہ استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے منقطع بھی۔ بخاری نے عرایا کا ایک مستقل باب باندھا ہے اس سے بھی امام صاحب کی تائید بعض روایات سے صراحۃ بعض سے اشارۃ ہوتی ہے۔ اور عریہ کا اطلاق لغت سے معلوم ہوتاہے کہ عطیہ پر ہوتاہے نہ بیع پر۔ پس یہ بھی حنفیہ کی ایک دلیل ہوگئی۔ خمسۃ أوسق کی قید عند الشوافع احترازی ہے اس سے زیادہ میں بیع مزابنہ جائز نہیں کہتے۔امام صاحب اس قید کو اتفاقی فرماتے ہیں کہ اکثر چونکہ یہی مقدار ہوتی تھی لہٰذا أخمسۃ اوسق فرمایا گیا اور چونکہ یہ بیع مزابنہ ہی نہیں لہٰذا پانچ وسق کی شرط نہیں دس بیس وسق میں بھی عریہ جائز ہوگا۔(وفیہ ما فیہ)
باب النجش
بیع منعقد ہوجائے گی اس کو یہاں شوافع نے بھی تسلیم کرلیا کہ بیع کی نفی نہ ہوگی مگر شغار وغیرہ میں معلوم نہیں کہ اصل عقد کو کس لئے جائز نہ رکھا۔
باب الرجحان فی الوزن
یزن بالاجر میں ظاہر یہ ہے کہ اجر سے مراد ثمن ہے یعنی اجر مبیع یعنی ثمن کو تولتا تھایا بالاجر سے یہ مراد ہو کہ اجرت لیکر تولتاتھا۔ رجحان اس قدر چاہئے جس قدر عرف میں رائج ہو۔ اس قدر زیادتی کو زائد علی الحق نہ کہیں گے۔