جدید کی روایت کو وجوب کے لئے نہ لیا گیا تو تعارض بین الروایات نہ رہا۔
باب ویل للأعقاب من النار
معلوم ہوا کہ غسل اعقاب فرض ہے کیونکہ عذاب بالنار ترک فرض پر ہوتا ہے اس سے روافض پر رد ہوتا ہے۔
باب الوضوء مرۃ مرۃ
آپ نے تین تین مرتبہ تمام اعضاء کو دھو کر بھی وضو کیا ہے اور دو دو مرتبہ بھی اور ایک ایک دفعہ بھی۔ اور بعض اعضاء کو ایک مرتبہ اور بعض کو دو تین دفعہ بھی ۔ جواز سب میں ہے دو میں فضیلت اور تین میں افضلیت حاصل ہوگی۔
باب النضح بعد الوضوء
یہ دفعیۂ وسواس کی غرض سے ہے کہ قطرۂ بول کی تری کا شبہ نہ ہو۔
باب الاسباغ علی المکارہ
جیسے ہاتھ پاؤں پھٹ گئے ہوں۔ یا جاڑا سخت ہو اور کثرۃِ خُطا الی المسجد ۔ اس طرح کہ مسجد دور ہو یا کئی مرتبہ نماز کو آوے یا قد م چھوٹے چھوٹے رکھ کے چلے۔
باب الوضوء لکل صلٰوۃ
اختلاف اس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جو ہر نماز کو تازہ وضو سے پڑھتے تھے یہ آپ پر فرض تھا یا استحبابًاایسا کرتے تھے۔ اہلِ ظاہر وجوب کے قائل ہیں اور یوم فتح کو ضرورت پر محمول کرتے ہیں ، حنفیہ وغیرہ کے نزدیک آپ پر واجب نہ تھا، زیادۃً للثواب کیا کرتے تھے۔
باب کراہۃ فضل طہور المرأۃ
ان احادیثِ مختلفہ سے بعض علماء نے فضالہ ٔمرأۃ کو مکروہ سمجھا۔ لیکن مذہب جمہور یہ ہے کہ مکروہ نہیں۔ جمہور میں سے بعض نے احادیث دالۃ علیٰ الکراہت کو منسوخ اور احادیثِ استعمال کو ناسخ سمجھا ہے، اور بعض نے اسطرح تطبیق دی کہ محرمات کا فضل غیر مکروہ اور غیر محرم و اجنبیات کا مکروہ۔ مگر اس تطبیق میں یہ نقص ہے کہ آپ ﷺ نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ فضالۂ طہور مرأۃ سے وضو نہ کرے بلکہ فلیغترفا جمیعًا اس سے معلوم ہو کہ محرم کا بقیہ وضو بھی مکروہ ہے کیونکہ اجنبیات میں لیغترفا جمیعًاتھوڑا ہی مقصود ہے کیونکہ غیر محرم اور اجنبی سے مخالطت و مجانست جائز نہیں۔ پس طریقہ احسن دفع تعارض کا یہ ہے کہ سمجھا جائے کہ اصل میں احادیث نہی سے دفع وسواس مراد ومقصود ہے۔ ورنہ بقیہ طہور