باب تغلیظ الزور
کبائر کاحصر معاصی مذکورہ فی الحدیث میں نہیں بلکہ اور بھی کبائر ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جو معاصی شروفساد میں ان معاصی کے مشابہ ہوں جن کا کبیرہ ہونا منصوص ہے وہ بھی کبیرہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ کبیرہ وصغیرہ اضافی امور ہیں۔ بس یہ توسع ہے۔
باب التجار
مقربین کے چار ہی درجے آتے ہیں۔ انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین اور مراتب میں ترتیب بھی یہی ہے۔ البتہ صدیقین کا مساوی القدرہوناضروری نہیں بلکہ بعضہم افضل من بعض۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر ؓ تمام صدیقین سے اعلیٰ وافضل ہیں، علی ہذا القیاس شہداء وصالحین۔ صدیق کہتے ہیں کامل الصدق کو جو انوار نبوت کے لیے قابل تام ہو اور جس کو نبی سے تقابل کامل ہو جیسے حضرت صدیق اکبر ؓ کہ بس قابل تام تھے اور تقابل کلی حاصل تھا۔ اسی وجہ سے استفادہ انوار میں نہایت آسانی تھی چنانچہ غیرصحاح کی روایت میں ہے کہ میں نے صدیق کے قلب میں وہ ڈالدیا جو کچھ میرے قلب میں ڈالا گیاتھا۔ اور مشائخ صوفیہ لکھتے ہیں کہ ہم کو آنحضرت ﷺ کے قدم مبارک ابوبکر ؓ کے سر پر نظر آتے ہیں یعنی انتہائے درجہ نبوت ابتدائے درجہ صدیق اکبر ؓ ہے وہو اعلیٰ المراتب یوتیہ من یشاء۔ تجارت کو مشوب بالصدقہ کرنا چاہئے تاکہ جو کوئی حلف عادتا بلااختیار یاکذب وغیرہ صادر ہوا ہو اس کا کفارہ ہوجائے۔
باب الشراء الی أجل
عائشہ ؓکی حدیث سے جواز بیع الی اجل معلوم ہوگیا۔ باقی اجل مجہول عندالحنفیہ جائز نہیں پس اس معاملہ میں آپ ﷺ نے کوئی مدت بھی مقرر فرمادی ہوگی اور الی المیسرہ بھی فرمادیا ہوگا ہاں اس طرح جائز ہے کہ ایک شے کی بیع تام اور ثمن معین کرکے اب کہے کہ ثمن پھر ادا کردوں گا۔ اس صورت میںجہالت اجل عندالاحناف بھی جائز ہے اور روایت کاحمل ان معنیٰ پر بھی درست ہے۔
باب بیع المدبر
شوافع جائز کہتے ہیں اور حنفیہ ناجائز اور احادیث جو اس بارہ میں آتی ہیں وہ حنفیہ پر حجت ہیں اور ان کا جواب دینا پڑے گا لیکن یہ روایت تو حنفیہ کے موافق ہے نہ کہ شافعیہ کے کیونکہ یہ صاف لفظ ہیں: دَبّرَ ۔۔۔۔فمات۔۔۔۔ فباعہ بیع مدبر بعد الموت تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں یہ تو گویا مسئلہ مختلف فیہ سے علیحدہ امرہے کہ حر کی بیع ہے جس طرح حنفیہ کو اس