اس طرح جواب دیا قطع نظر اس کے روایت بھی کچھ قوی نہیں۔ محمد بن اسحاق راوی کو بعض محدثین نے اچھی طرح یاد نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔
امام ؒ نے مسئلہ ماء کو رائے مبتلا بہ پر تفویض کیا ہے۔ بشرطیکہ صاحب رائے ہو۔ کوئی تحدید نہیں فرمائی کیونکہ نصوص میں تحدید نہیں اور رائے سے تحدید کرنہیں سکتے۔ اگر مبتلیٰ بہ قلتین کو کثیر سمجھے اس کے لئے وہی کثیر ہیں اور اگر اس سے کم زیادہ کو کثیر سمجھے وہی اس کے حق میں کثیر ہیں اور یہ بعینہ تحری عند اشتباہ القبلہ کے مانند ہے جیسا اس میں ہر ایک مبتلا بہ مستقل ہے اسی طرح اسمیں۔ باقی دہ دردہ یہ کوئی اصل شرعی نہیں چنانچہ محققین حنفیہ تصریح فرمارہے ہیں۔ ابن عبدالبر اور صاحب اشباہ ونظائر نے صاف لکھا ہے کہ یہ غلط ہے کہ دہ دردہ اصل شرعی ہے، بلکہ صاحب شرح وقایہ کا اسکو ثابت کرنا محض بے فائدہ اور بیکار ہے اسکی اصل صرف امام محمد ؒ کا نحو مسجدي ھذا فرمانا البتہ رفع تلاف ونظر بر مصالح یہ مقدار متعین بہتر ہے۔
باب البول فی الماء الراکد
یہ حکم ماء قلیل کا ہے ماء کثیر مستثنیٰ عقلی ہے اور خود سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسطرح نجس نہ ہوگا۔ البتہ حنفیہ کے لئے ایک حجت ہوگئی کہ آپ ﷺ نے ممانعت فرمائی اور ظاہر یہ ہے کہ بخوف نجاست ہوگی۔
باب ماء البحر
اکثر لوگ تو قائل جواب ہیں البتہ بعض بوجہ اسکے کہ مولد امراض ہے مکروہ سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ نار سے نار حقیقی مراد لیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اسکے نیچے طبقہ ناری ہو۔ چنانچہ رات کو وضو کرنے میں اس پانی سے چمکدار ذرات کا گِرنا محسوس بالنظر ہے اور نار مجازی بھی مراد ہوسکتی ہے۔ یعنی بہت تیز اورمؤلد امراض ہے۔
باب بول الغلام
رش(۱) کے معنیٰ اس جگہ اراقہ ک لینے چاہئیں ورنہ صرف رش سے تو اور نجاست
(۱) انہیں روایات میں نضح کا لفظ ہے جس کے معنی شوافع صرف چھینٹا دینے کے فرماتے ہیں لیکن بخاری ومسلم میں دم حیض کے لیے یہی فلتقرصہ ثم تنضحہ بالماء وارد ہے وہاں یہ معنی کیوں مراد نہیں لیتے؟(دیکھو مشکوٰۃ مجتبائی ۵۲)
پھیل جائیگی۔ غرض یہ ہے کہ آپ نے غیر آکل طعام کے بول کو مبالغہ سے نہیں دھویا کیونکہ وہ صاف اور رقیق ہوتا ہے بخلاف بول جاریہ کے کہ وہ بوجہ رطوبت طبعی غلیظ ہوتا ہے۔ باقی نجاست دونوں کی غلیظ ہے البتہ زائل ہونا ایک کا بسرعت ہے اور دوسرے کا ذرا مشکل۔(۱)