عدت کے قائل ہیں لیکن اس روایت میں انکے مذہب کی دلیل نہیں کیونکہ وہ تو عدت بالاطہار فرماتے ہیں اسمیں اگر ہے تو حیض واحد ہے نہ کہ طہر واحد۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ حیضۃ کی تاوحدت کے لئے نہ ہو بلکہ جنس ونوع کے لئے ہو۔
باب الطلاق بأمر الأب
فقہاء کہتے ہیں کہ اگر زوجہ کاقصور ہو تو باپ کی اطاعت کرے زوجہ کو طلاق دیدے اور باپ ناحق ایسا چاہتا ہے تو طلاق نہ دے (یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں ضروری نہیں)۔
باب طلقۃ المعتوہ
جنون میں بالاتفاق طلاق نہیں پڑتی اور سکر میں بعض کہتے ہیں کہ نہیں پڑتی ۔ حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر اسکو سکر از قسم معصیۃ ہے تو زجرًا طلاق پڑجائے گی اگر از قسم معاصی نہیں تو واقع نہ ہوگی بظاہر الحدیث ۔ غرض عند الحنفیہ بھی عدم وقوع ہے بمقتضائے ظاہر حدیث ۔ لیکن تشدد ًا وزجرًا واقع کی گئی۔
باب الحامل متوفی عنہا زوجہا
اگر آیت اربعۃ اشہر اور آیت وضع حمل میں تعارض تسلیم کرلیا جائے تووضع حمل کی آیت بوجہ تأخر فی النزول کے ناسخ ہوگی۔ عدت میں آپﷺ نے کحل کو منع فرمایا اگرچہ بطور دوا کے بھی ہو کیونکہ اور ادویہ اسکے علاوہ موجود ہیں جن سے ضرورت رفع ہوسکتی ہے اس سے مذہب امام کی تائید نکلتی ہے کہ بوقت موجودگی دواء مباح استعمال دواء حرام جائز نہیں ہاں جب کوئی اور دوا نافع نہ ہو تب جائز ہے۔
باب کفارۃ الظہار
اس حدیث میں جو مقدار ہے وہ خلاف مذاہب ہے کیونکہ تمر عند الحنفیہ ساٹھ صاع واجب ہیں اور عند الشوافع (۱)صر ف ایک وقت کے تیس صاع۔ پس مقدار مذکور فی القصہ
شوافع کی مقدار سے بھی کم ہے پس کہاجائے کہ یہ تفسیر راوی نے اپنی طرف سے کردی ہے
(۱)والصحیح أنہ مذہب مالک وعندالشوافع خمسۃ عشر صاعا۔ کما فی حاشیۃ البذل والکواکب۔۱۲
کہ پندرہ صاع کی مقدار تھا۔ گو واقع میں وہ زیادہ ہو یا مراد آپﷺ کے ارشاد سے یہ ہے کہ یہ مقدار لیکر مساکین کو دو مع طعام آخر کے چنانچہ بعض روایات میں دوسرے مکیل کالایا جانا ثابت ہے۔
باب الإیلاء