دیئے ہیں کہ وہ تطویل من حیث التعوذ والتسمیہ تھی اور آپ ﷺ نے پہلی میں دُعائے افتتاح بھی پڑھی ہوگی اور ایک دو آیت بھی دوسری سے زیادہ پڑھی ہوگی اس وجہ سے اوّل طویل معلوم ہوئی لیکن ان جوابات کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ اصلی بات تو تساوی بین الرکعتین ہے کیونکہ احدہما کی ترجیح کی کوئی وجہ نہیں البتہ بوجہ عوارض کے اول کی تطویل جائز بلکہ مستحب ہے مثلاً کسی وجہ سے مقتدی دیر میں آئے یا وضو کررہے ہیں انکی رعایت سے اولیٰ کی تطویل کردے کہ وہ فضل رکعت سے محروم نہ رہیں۔ صبح کا بھی یہی حال ہے کہ فضل رکعت للمقتدیین کے لحاظ سے رکعت اولیٰ کو طول دے کیونکہ وہ وقت غفلت اور نوم کا ہے لوگ دیر میں آتے ہیں پس بوجہ طول وہ پہلی رکعت پالیں گے اور فضیلت رکعت حاصل ہوجائیگی۔ الحاصل اصل تو یہ ہے کہ سب نمازوں میں ہر دو رکعت مساوی ہوں البتہ عارض کی وجہ سے اس میں استحباب آگیا ہے کہ اوّل طویل ہو۔ پس اگر ضرورت ہو تو اس عارضی وجہ میں ظہر و فجر برابر ہیں ۔ مغرب میں طوال کی عادت کرلینی مکروہ ہے۔ احیانًا طویل پڑھنا درست ہے۔ آپ ﷺ کا معمول بہا قصار ہی تھا کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ وعمر ؓ بھی قصار ہی پڑھتے تھے اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عمّال کو بھی قصار فی المغرب کے لئے لکھ بھیجا تھا۔ عشاء میں بھی زیادہ طول نہیں ہے۔ آپ ﷺ خود حضرت معاذ ؓ کو طول فی العشاء سے منع فرما کر والشمس وغیرہ کا حکم فرمارہے ہیں چنانچہ احادیث سے بھی اسی قسم کی سورتیں ثابت ہیں۔
باب القرأۃ خلف الامام
اس حدیث سے امام شافعی ؒ قراء ۃ فاتحہ خلف الامام کو ضروری اور فرض سمجھتے ہیں۔ بڑی حجت انکی یہی دو حدیثیں ہیں ایک لاصلٰوۃ کی اور ایک یہ لیکن وہ جو قوی تھی وہ تو انکے مدعا پر نص نہ تھی کیونکہلاصلٰوۃ سے نفی جواز و صحت سمجھنے میں کلام ہے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ نفی کمال مراد ہے چنانچہ اس میں جو او ما زادیا سورۃ معھا وار ہے اس سے تو امام شافعی ؒ صرف سنیت سمجھتے ہیں۔ غرض اس سے فرضیت سمجھنا ایک بعید احتمال ہے جیسا کہ دوسرے جملہ میں فرضیت کے شوافع بھی قائل نہیں۔ یہ روایت بھی اوّل تو مدعا پر نص نہیں اور اگر بالفرض اسکو نص علی المدعا سمجھا جاوے تو قوی نہیں ترمذی ؒ اسکو حسن کہہ رہے ہیں لیکن محمد بن اسحاق کی جس قدر تضعیف کی گئی ہے اس سے یہ حدیث قابل عمل نہیں رہتی جو محدثین ان پر ذرا کم خفا ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ انکی روایت فضائلِ اعمال وغیرہ میں قبول کرلی جائے لیکن حرام و حلال فرض واجب میں ہر گز نہیں۔ پھر بھلا انکی روایت سے کس طرح فرضیت ثابت ہوسکتی ہے اور وہ بھی باوجود معارضہ احادیث صحیحہ۔ اور اگر باوجود ان تمام وجوہ کے حدیث کو بالفرض صحیح مان لیا جائے تب بھی اس حدیث سے فرضیت بھلا کس طرح ثابت ہوتی ہے اس میں آپ ﷺ نے مطلقًا قرأت کی ممانعت فرما کر فاتحہ کو مستثنیٰ فرمایا اور ظاہر ہے کہ ممانعت کے بعد اجازت سے اباحت