کا شاہد ہے کیونکہ راوی کے خلاف روایت عمل کرنے سے حدیث میں ایک قسم کا نقص پیدا ہوجاتا ہے ۔ دار قطنی میں روایت ہے کہ عن الاعرج عن ابی ہریرۃؓ عنہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی الکلب اذا یلغ فی الاناء یغسل ثلاثًا.......او خمسًا او سبعًا اور ابن عربی مرفوعًا روایت کرتے ہیں کہ اذا ولغ الکلب فی اناء احدکم فلیہرقہ ولیغسلہ ثلاث مرات کذا فی فتح القدیر ۔پس اس سے خوب ہی معلوم ہوگیا کہ صرف تطہیر وتنظیف کے لئے ہے۔
باب مسح الخف اعلاہ واسفلہ‘
دوسری متعدد روایات کی وجہ سے بعض نے اس حدیث کو قابل عمل نہیں سمجھا اور ایک تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک ہاتھ سے خف کی جانب اسفل ٹھہرایا اور دوسرے ہاتھ سے اوپرکی طرف مسح کیا ہو۔ یعنی ایک ہاتھ سے قدم شریف کو پکڑا اور
(۱) روی الدار قطنی بسند صحیح عن عطاء موقوفا علی ابی ہریرۃ أنہ إذا ولغ في الإناء فأھرقہ ثم غسلہ ثلاث مرات۔۱۲
دوسرے سے مسح کیا جسکو راوی نے مسح اعلیٰ واسفل سمجھا۔ لیکن یہ ذرا بعید ہے کہ راوی کے فہم کی خطا سمجھی جائے اور کہا جائے کہ راوی نے اخذ الخف بالید کو مسح سمجھا پس احسن یہ ہے کہ کہاجائے کہ آپ ﷺ نے استحبابا ایسا کیا تھا۔ پس اب روایت میں نہ تعارض رہتا ہے نہ کسی روایت کا ترک لازم آتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ مسح اعلیٰ خف آپ ﷺ نے وجوبًا کیا اور اسفل خف کا استحبابًا کیا۔ غرض کوئی سی تاویل لیجئے فرض صرف مسح اعلیٰ ہے بوجہ کثرت روایت دالّہ علی فرض المسح برا علی الخف اور بوجہ قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ، لو کان الدین بالرایٔ لکان اسفل الخف اولیٰ بالمسح۔
باب المسح علی الجوربین و النعلین
یہ معنیٰ بے تکلف ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک حالت میں جو ربین ونعلین پر مسح کیا یعنی مقصود تو صرف مسح جوربین تھا لیکن نعلین چونکہ متصل تھے ان پر بھی مسح ہوگیا۔ عرب کے نعلین میں بلا اخراج نعلین مسح ہوجانا ظاہر ہے کیونکہ اس میں صرف تسمہ اور تحتانی حصّہ ہوتا ہے۔
باب مسح العمامۃ
ایک تو وہی تاویل ہے کہ آپ ﷺ نے ناصیہ پر مسح فرما کر عمامہ کو ہاتھ سے درست کیا اور راوی نے اسکو مسح عمامہ سمجھا مگر یہ بھی علی قیاس ما مضی ذرا بعید ہے۔ پس تاویل اچھی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے مقدار ناصیہ کے مسح کے بعد استیعاب کے لئے مسح عمامہ فرما لیا۔ اس میں سنت استیعاب بھی ادا ہوگئی، بعض لوگ مسح علی العمامہ کو بھی کافی سمجھنے والے ہیں۔
باب الغسل من الجنابۃ وعدم الوضوء بعدہ