باب اکراہ الیتیمۃ
مراد اس سے بالغہ ہے ۔باعتبار ماکان اور قرب زمان کے یتیم فریاما گیا چنانچہ وان ابت فلا جواز علیھا سے صاف ظاہر ہے۔
باب الولیان یزوجان
فہی للأول منھما یہ اس وقت ہے کہ ہرودو ولی مساوی درجہ کے ہوں ورنہ بوقتِ اختلاف مراتب اولیاء فی القرب والبعد اعتبار اقرب کی تزویج کا ہوگا یہ فہی للاول منہما میں اوّل سے مراد اقرب ہو۔ یعنی اول فی الرتبہ۔ پس اختلاف مراتب اولیا کے وقت جو حکم ہے وہ بھی اس سے معلوم ہوگیا۔ بیع میں نصفا نصف کرادیا جائیگا اگر دو شرکا ء نے بیع کی ہے۔ اور اگر وکیل وموکل نے معًا بیع کی ہے تو موکل کا اعتبار ہوگا۔
باب نکاح العبد
بلا اجازت مولیٰ موقوف رہے گااس کی اجازت سے جائز ہوجائیگا فھو عاھر تشدد او تغلیظا فرمایا گیا ہے کہ بلا اجازت نہیں چاہیئے۔
باب مہور النسَاء
شوافع اور بعض ائمہ نکاح کو مثل بیع فرماتے ہیں کہ جیسے اس میں اقل واکثر ثمن کی حد نہیں مہر میں بھی نہیں البتہ اتنا مہر ہو کہ معاوضہ ہوجائے۔ امام مالک و ابو حنیفہ اسمیں تو متفق ہیں کہ اقل مہر کے لئے حد مقرر فرماتے ہیں لیکن تعین مقدار میں خلاف ہوا ہے۔ مالک ربع دینار کو اقل درجہ کہتے ہیں اور امام صاحب دس درہم کو ۔ جن روایات میں نعلین یا خاتم حدید کا ذکر ہے وہ معجل پر محمول ہیں۔ قرآن کی سورتوں پر نکاح ہونے کو حنفیہ کہتے ہیں کہ سورتیں مہر نہ تھیں بلکہ انکے حفظ کی فضیلت کی وجہ سے نکاح کرادیا گیا۔ اور بہتر یہ ہے کہ خصوصیتِ شارع علیہ السلام پر محمول ہو کہ آپﷺنے بلا مہر نکاح کردیا۔ چنانچہ وہ عورت اپنا نفس آنحضرت ﷺ کو ہبہ کرچکی تھی آپﷺنے کسی وجہ سے قبول نہ فرمایا تو جیسا آپﷺکو بلا مہر نکاح کرلینا اپنے سے جائز تھا اسی طرح آپﷺکو اختیار تھا کہ آپ ﷺ کسی سے بلا مہر نکاح کردیں چنانچہ آپ ﷺ کا طالب نکاح سے مرۃ بعداُخریٰ سوال فرمانا اور عورت سے اجازت اور مشورہ کچھ نہ لینا اس پر دال ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قرآن میں اموالکم وارد ہے اور ظاہر ہے کہ نہایت حقیر وادنیٰ شے کو مال واموال نہیں کہتے چنانچہ حلف بالمال میں کم از کم تین درہم دینے واجب ہوتے ہیں۔ شوافع نے مال اور ذریعہ مال کو مہر بنانا جائز رکھا مثل عتق وغیرہ کے۔ تزوج بعد العتق میں اسی وجہ سے صرف عتق کو مہر کہتے ہیں کیونکہ ذریعہ مال ہے مگر امِ سلیمؓ کے قصّہ میں شوافع کو دقت