شخص کے ہیں چنانچہ انساب سمعانی کے مؤلف جو بڑے پکّے شافعی ہیں انکو ایک ہی شخص کے نام بتلاتے ہیں) مؤطا میں ایک روایت ہے کہ جس میں راوی نے پہلے ذوالیدین کہا ہے اور پھر اسی قصّہ میں ذوالشمالین بولا ہے جس سے اتحاد معلوم ہتا ہے۔ (راقم) ابوہریرہ ؓ کاصلینا کہنا باعتبار جمع کے دوسرں کے اعتبار سے ہوگا جیسا کہ شافعیہ کہتے ہیں کہ قصہّ حج میں حضرت عائشہ ؓ کا تمتّعناکہنا دوسروں کے اعتبار سے تھا وہ خود قارن تھیں۔ باقی ایک روایت یہ ہے جس میں ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ صلیت خلف رسول اللّہ الخ اسکا جواب حنفیہ یہ دیں گے راوی نے ابوہریرہ ؓ سے صلینا سنا اور پھر بصیغہ واحد صلیتُسے تعبیر کردیا اور یہ خیال نہیں رہا کہ انکا صلینا کہنا دوسروں کے اعتبار سے تھا۔ غرض ضرور ہے کہ ابوہریرۃ ؓ دوسرں سے سنکر روایت کرتے ہوں ، اس قصّہ اور کلام کے منسوخ ہونیکی عمدہ دلیل یہ ہے کہ اسی واقعہ کے وقت حضرت ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما موجود تھے چنانچہ روایت میں ہے کہ وَفیِ النّاس ابوبکر وعمرفَھَاباہ أن یُکّلماہ اور پھر بزمانہ خلافت عمر ؓ کو بعینہٖ اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے بنا نہیں کی بلکہ از سرِ نو نماز پرھی اس سے زیادہ نسخ کی کیا دلیل ہوسکتی ہے صلی الظہر خمسًا کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں جلسہ ثانیہ کے ہونے نہ ہونے کا ذکر نہیں ہردو احتمال برابر ہیں۔ پس اس روایت سے حنفیہ پر حجۃ نہیں ہوسکتی ممکن ہے کہ جلسہ ہوگیا ہو۔
بابُ الشک فی الزیادۃ والنقصان
اس حدیث میں کیفیت بناء نہیں بتلائی گئی صرف آخر کا سجد ہ سہو مذکور ہے کیفیت بنا کے بارہ میں ترمذی ؒ رُوِی کرکے بیان کرتے ہیں کیفت بنا جو روایات میں مذکور ہے حنفیہ اسکو تین حالتوں پر تقسیم و ترتیب کردیتے ہیں حالت شک میں یا تو شک ہو کر پھر ایک جانب معین ہوجائے اور شک زائل ہوجائے یہ تو گویا شک نہ تھا اسے کالعدم سمجھا جائے گا البتہ اگر حالتِ شک میں سوچتے ہوئے تعیین احد الجانبین کے لئے اسکو کچھ دیر تک بالکل بیکار اور ساکت رہنا پڑاتو کہتے ہیں کہ سجدہ سہو کرے۔ اگر شک ابتدائً حادث ہوا ہو یا شاذونادر ہوتا ہو تو اسکے لئے حکم استیناف فرماتے ہیں اور اگر شک کے بعد تعیین احد الجانبین نہ ہوا اور تحری میں کچھ نہ آئے ( اور یہ شک ابتدائً حادث نہ ہوا ہو) تو اب بنا علی الاقل کرے اور اکثر کا خیال رکھے یعنی ہر رکعت پر قعدہ کرے اور تیسرے یہ کہ شک کے بعد کوئی حالت بالتحری متعین [أقول ہذا داخل في الأول]ہوجائے۔ غرض امام نے ہر سہ روایات کا محل اور موقع بیان کردیا اور سب پر عمل رہا۔
باب التسلیم علی الرکعتین فی الظہر والعصر
ذوالیدین کے قصّہ کا حال معلوم ہوچکا ہے اب اس مفصل روایت کو ذکر کرکے بلفظ اِعْتَلُّوا [علت نکالنا یعنی خرابی بیان کرنا]مذہب امام پر تعریض کرتے ہیں اور پھر اکل فی الصوم ناسیًا کے مسئلہ کو پیش کرتے ہیں کہ اسمیں حنفیہ عدم فساد کے