جن لوگوںکو دعوت اسلام پہنچی نہ ہو ان کو دعوت کرنا واجب ہے اور جن کو پہنچ چکی ہو ان کوضروری نہیں کرے یا نہ کرے۔ امام صاحب کے نزدیک بلا ضرورت شب خون بہتر نہیں کیونکہ اس میں احتمال صبیان ونساء کے قتل کاہے۔ضرورت میں جائز ہے۔قطع اشجار وہدم دار سے اگر دشمن کو پریشانی اور الم اوررعب پہنچانا ہو توجائز ہے یا وہ اس سے پناہ پکڑتے ہوں تب بھی قطع وہدم جائز ہے۔
باب السہم
سب ائمہ حتی کہ صاحبین کابھی یہی قول ہے کہ راجل کا ایک اور فارس کے تین سہم۔ مگر امام صاحب فارس کے دو سہم کہتے ہیں اور بعض روایات سے ان کی تائید بھی ہوتی ہے تین سہم کو امام صاحب تنفیل پرحمل کرسکتے ہیں چنانچہ جب سلمۃ بن الاکوع نے تنہا دشمن کے لشکر کا مقابلہ اور بہادری کی تو آپ ﷺ نے اس کے انعام میں ان کو راجل وفارس ہردو قسم کا حصہ دلوایا۔ جیسے وہ بطور نفل تھا ایسے ہی فارس کو تین سہم دیا جانا، اور مشہور تاویل اس میںحنفیہ کی یہ ہے کہ فرس سے مراد فارس اور رجل سے مراد راجل ہے وہو المراد۔
باب
نساء واطفال کا کوئی سہم معین نہیں بطور عطاء جو مناسب ہو امام دیدے۔ آپ ﷺ کا امرأۃ وصبی کو سہم عطا فرمانا اسی پرمحمول ہے کہ عطیہ دیا۔
باب اخراج الیہود والنصاریٰ من العرب
آپ ﷺ کا ارادہ تھا مگر پورا نہیں ہواحضرت عمر ؓ نے اخراج کردیا۔
باب
ترکہ نبی علیہ السلام کے لئے حضرت فاطمہ طلب کرنے آئیں تھیں اور حضرت علی وعباس بھی حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اسی غرض سے آئے تھے۔ عمر کے پاس حضرت علی وعباس بطلب وراثت نہیں تشریف لائے بلکہ ان دونوں صاحبوں کو اس خاص وقف کا متولی حضرت عمر نے بنادیا تھا جس کو پہلے بطور وراثت چاہتے تھے۔ اب حضرت عباس وعلی میں اختلاف رائے کی وجہ سے کچھ نزاع ہوا اس وقت یہ حضرت عمر کے پاس رفع نزاع کے لئے تشریف لائے تھے نہ کہ طلب وراثت کے لئے۔ اب غرض یہ تھی کہ وقف کو تقسیم کرکے جدا جدا کردیاجائے کہ ہر ایک متولی مستقل ہوجائے تاکہ اختلاف رائے سے نزاع نہ ہوا کرے لیکن حضرت عمر نے دور اندیشی سے تقسیم نہ فرمایا کیونکہ جب وارثوں میںتقسیم ہوگا تو اس کو