باب ادخال الاصابع
سرخ حلہ میں خلاف ہے۔ سُرخ کپڑے کو بعض تو مردوں کے لئے مکروہ فرماتے ہیں اور بعض مباح اور بعض مسنون۔ جو مباح ومسنون فرماتے ہیںانکو تو کچھ کہنے کی ضرور ت نہیں، البتہ مکروہ فرمانے والے بھی تاویل کرتے ہیں کہ وہ حُلّہ مخطط بخطوطِ سرخ تھا اور یمانی کپڑے ایسے ہی ہوتے ہیں، آپ کو یمنی کپڑوں سے رغبت تھی اور کثرت سے استعمال فرماتے تھے۔
باب التثویب
تثویب کے معنیٰ تو اعلام بعد الاعلام کے ہیں لیکن قسمیں اسکی دو ہیں ایک بدعت ایک سنت چنانچہ ترمذی خود فرماتے ہیں۔ پس سوائے اذان صبح کے دوسری اذانوں میں بھی بدعت اور خارج اذان مطلقًا بدعت ہے ۔ حتیٰ کہ ابنِ عمر ؓ نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کو بھی گوارا نہ فرمایا۔
باب من اَذَّن فہو یقیم
امام صاحب ؒ کے نزدیک اذان واقامت مختلف آدمیوں کا کہنا مکروہ نہیں البتہ اگر مؤذن کی ناراضی معلوم ہو تو دوسرے کو کہنا مکروہ ہے اور اگر دلالۃً یا صراحۃً معلوم ہوجائے کہ وہ ناراض نہ ہوگا تو دوسرے کو اقامت کہنی جائز ہے۔
باب
اذان بلا وضوء خلاف اولیٰ ہے۔
باب الامام احق فی الاقامۃ
یعنی تکبیر جب کہی جائے کہ امام تیار ہو کر آجائے اور اذان میں امام کا موجود ہونا ضروری نہیں بلکہ مؤذن احق ہے یعنی وقت پہچان کر کہہ دے امام کا اس میں اختیار نہیں بلکہ مؤذن املک ہے۔
باب الأذان باللیل
اس سے مراد اذان صلوٰۃ صبح باللیل ہے کیونکہ صلوٰۃ لیل کی اذان کا ذکر اس میں نہیں امام صاحب ؒ صبح کی اذان کو قبل طلوع الفجر جائز نہیں فرماتے جیسا کہ دیگر اوقات میں قبل الوقت جائز نہیں البتہ چار وقت میں اور ائمہ بھی متفق تھے لیکن صبح میں اختلاف ہوگیا۔ جو روایات امام کی مؤید ہیں اب ترمذی انکو معنیً وسنداً ضعیف کرنا چاہتے ہیں خیر سند میں تو چونکہ ہو امام حدیث ہیں انکا فرمانا معتبر ہوگا۔ لیکن انکا یہ کہنا کہ لم یکن لھذا الحدیث معنیً الخ درست نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسکو سمجھے