باب حل میتۃ البحر
اکثر حضرات مطلقاً جواز کے قائل ہیں۔ اور بعض سمک کے سوا اور سب کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ جیسے امام صاحب ؒ اور بعض بین بین ہیں۔ یعنی جو دریائی جانور برّی حیوان ماکول اللحم کے مشابہ ہیںوہ جائز، اور جو غیر ماکول اللحم سے مشابہ ہیں وہ ناجائز۔ اور جو کسی کے مشابہ نہیں وہ بھی جائز۔ امام صاحب ؒ یہاں میتہ سے خاص سمک ہی مراد لیتے ہیں اور وہ حدیث انکی مؤید ہے کہ احلّت لنا المیتتان السمک والجراد کیونکہ اسکا کوئی قائل نہیں کہ کسی بحری جانور میں ذبح بھی بلکہ جو حلال کہتے ہیں وہ میتہ وغیرمیتہ ہر قسم کے بحری کو حلال کہتے ہیں اور جو عدم جواز کے قائل ہیں وہ سب کو (میتہ وغیر میتہ) ناجائز فرماتے ہیں پس آپ ﷺ کے اس فرمانے سے کہ احلّت لنا المیتتان السمک والجراد معلوم ہوا کہ منجملہ میتۃ بحری صرف سمک ہی حلال ہے۔ کسی روایت سے ذرا بھی تو ثابت نہیں کہ صحابہ میں سے کسی نے بھی کوئی بحری جانور سوائے سمک کے کھایا ہو اس سے امام صاحب ؒ کے مذہب کو اور تقویت ہوتی ہے۔
باب بول ماکول اللحم
ایک وجہ اس میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کہ لوگ مسلمان نہیں ہیں بلکہ ظاہری حالت اسلامی بنالی ہے اس لئے آپ ﷺ نے انکو شرب بول کا حکم کیا چنانچہ پھر انکا ارتداد تو معلوم ہے لیکن یہ تاویل عمدہ نہیں ہے بہتر وہی ہے کہ آپ کو وحیًا وانکشافًا انکی شفاء اس میں منحصر معلوم ہوئی آپ ﷺ نے اجازت فرمادی۔ باقی
(۱)مسلم ترمذی ، نسائی میں روایت ہے کہ مذی کے لیے آپ نے فرمایا کہ فانضح وتوضأ جس کے معنی بالاتفاق غسل کے لیے جاتے ہیں۔۱۲
مذاہب امام و صاحبین اور انکا اختلاف اسمیں مشہور ہی ہے۔ غرض بعض علماء زیادہ وسعت کرتے ہیں۔ استشفاء بالحرام میں زیادہ قیود نہیں لگاتے بلکہ ضرورتًا جائز بتلاتے ہیں ۔ مثلاً لقمہ حلق میں رُک جائے تو ان علماء کی رائے کے موافق اگرچہ دوسری مائعات ملنے کی بھی اُمید ہو مگر خمر یا بول سے اساغۃ اللقمہ[لقمہ نگلنا] کرکے جان بچالے تو جائز ہے اور امام صاحب وغیرہم کا یہ مسلک ہے کہ جب سخت ضرورت اور جان کا اندیشہ ہو۔ مثلاً سمجھے کہ وصول الی الماء تک زندہ نہ رہے گا تو خمر وغیرہ سے لقمہ حلق سے اتار دے۔ بدون ایسی ضرورت کے جائز نہیں۔
باب الوضوء من الریح
یہاں حصر بنسبت ان امور کے ہے جو اکثر ناقض وضوء ہوتے ہیں یا یہ بات کہ جب آدمی مسجد میں یا نماز میں ہوتا ہے تو انہیں امور کی وجہ سے نقض وضو ہوتا ہے نفی مطلق ہر گز مقصورد نہیں یا خاص شک کرنے والے کے لئے حکم ہے کہ جب تک یقین نہ ہوجائے تب تک اپنے آپ کو محدث نہ سمجھے۔ چنانچہ دوسری حدیث سے یہ بات صاف اور بخوبی معلوم ہوتی