باب التسلیم
ایک سلام کے کافی ہونے اور اس سے ادائے واجب ہوجانے میں کلام نہیں۔ لیکن طریقہ مسنون عند الامام دو سلام ہیں۔ چنانچہ اکثر حضرات کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی ؒ اختیار دیتے ہیں اور تسویہ کراتے ہیں کہ جس طرح چاہے کرلے ۔ جس حدیث میں ایک سلام کا ذکر ہے ممکن ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ آپ ﷺ پہلا سلام تلقاء وجہہ سے یعنی بلا التفات احد الجانبین کرتے اور پھر دائیں جانب چہر ہ مبارک کو ذرا مائل فرماتے ۔ باقی رہا سلام ثانی اسکا اس میں ذکر نہیں اور ظاہر ی معنیٰ یہ ہیں کہ ایک سلام کے بعد دائیں طرف کو متوجہ ہوکر بیٹھ جاتے۔
باب ما یقول بعد التسلیم
ان احادیث سے بالکل اس مقدار کا حصر مطلوب نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ بیش و کم اسی قدر پڑھتے ۔ چنانچہ بعض ادعیہ ان میں ذرا طویل وقصیر ہیں غرض یہ ہے کہ جن فرائض کے بعد سنن لگے ہوئے ہوں ان کے بعد دیر نہ کرنی چاہیے۔
بابُ الانصراف یُمنۃً ویُسْرۃً
جس طرف چاہے انصراف کرے کسی ایک جانب کو واجب سمجھنا حظّ شیطانی ہے۔
باب التعدیل
اس روایت سے امام شافعی ؒ سند لاتے ہیں کہ تعدیل ارکان فرض ہے اہلِ اصول نے تو دوسری طرح اسکا جواب دیا ہے اور جھگڑا پید ا کیا ہے شوافع نے اسکے جواب بھی دیئے ہیں۔ مختصر جواب یہ ہے کہ یہ مفصل روایت کسی طرح حنفیہ کے مضر نہیں کیونکہ امام صاحب ؒ نے حدیث کے معنیٰ وہی سمجھے ہیں جو صحابہ ؓ نے آپ ﷺ کے فرمانے کے بعد سمجھے تھے جس سے انکا اطمینان ہوگیا تھا۔ لیکن امام شافعی ؒ اب تک وہی مطلب سمجھ رہے ہیں جو صحابہ ؓ پہلے سمجھتے تھے اور جس بنا پر آپ ﷺ کا قول شاق گذرا تھا اس حدیث میںآپ ﷺ صاف فرماتے ہیں کہ ان انتقصت شیئا فقد انتقصت من صلٰوتِک اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ صلٰوۃ کی نفی نہیں بلکہ کمال کی نفی ہے کیونکہ آپ ﷺ تعلیم فرمودہ نماز سے کم کرنے کو نقصان سے تعبیر فرماتے ہیں نہ بطلان سے اگر یہ مفصل روایت جو صرف ترمذی ہی میں ہے مذکور نہ ہوتی تو شوافع اس حدیث پر خوب جمے رہتے اور حنفیہ کو الزام دیتے لیکن اس تفصیل سے ایک بڑا جواب حنفیہ کے ہاتھ آگیا۔
باب القرأت
صلوٰۃ عصر میں توسع ہے یعنی خواہ قصار پڑھے یا اوساط مفصل ۔ظہر میں رکعت اولیٰ کی طوالت کے بعض حنفیہ نے جواب