تب سزا ملی۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ مقتول کاقول بھی کافی ہے اقرار یہودی کاذکر بعض روایات میں نہیں۔ دوسرا خلاف اس روایت میں یہ ہے کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ قصاص میں مساوات فی القتل ضروری نہیں بلکہ لا تود الابالسیف۔ پس یہ سزا یہودی کی یا تو تعزیرا تھی کہ اس کو بھی اسی طرح کچلا گیا یا منسوخ ہے لا قود الا بالسیف سے۔ نیز یہ اختلاف ہے کہ قتل بالمثقل میں عندالحنفیہ قصاص نہیں دیت ہے۔ دیگر ائمہ قصاص کے قائل ہیں۔ پس یہ فعل آپ کا عندالحنفیہ تشدد پر محمول ہوگا۔
باب قتل الذمي
آپ نے عامر یین کی دیت مسلمانوں کی مانند لی اس سے معلوم ہوا کہ ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی طرح ہوگی یہی امام صاحب کا مذہب ہے کہ دیت کامل یا قصاص آئیگا۔ اور ائمہ ذمی کے قتل میں مسلمان سے نہ قصاص دلواتے ہیں نہ پوری دیت۔
باب ولي القتل
امام احمد واسحق کامذہب ظاہر الفاظ حدیث کے موافق ہے کہ اولیاء مقتول مختار ہیں خواہ دیت لیں خواہ قصاص یا عفو کریں۔ امام مالک اور امام صاحب کہتے ہیںکہ قاتل کی رضامندی بھی ضروری ہے اگر وہ دیت پر راضی نہ ہو تو اولیاء مقتول دیت نہیں لے سکتے کیونکہ وہ تو ایک تبادلہ کی صورت ہے جو تراضی طرفین پر موقوف ہوگا بخلاف قصاص وعفو کے۔ ان روایات میں یہ دونوں ائمہ فرماتے ہیں کہ اختیار اولیاء برضاء قاتل مراد ہے مثلا ہم کو اپنی مملوک کتاب کو زید کے گھوڑے سے بدل لینے کا بداہۃ اختیار ہے مگر رضا قاتل پر موقوف ہے چنانچہ یہی روایت جو آگے آئی ہے کہ قاتل نے عرض کیا کہ مااردت قتلہ اسی کے متعلق بھی قصہ مسلم ونسائی میں آتاہے کہ آپ ﷺ نے اولیاء قاتل سے اول عفو کو کہا انہوں نے نہ مانا پھر آپ ﷺ نے دیت پر راضی کیا تو قاتل نے کہا کہ نہ میرے پاس مال ہے نہ قبیلہ میں میری کچھ عزت ہے کہ کوئی مال جمع کردے میں دیت پر راضی نہیںہوتا آپ ﷺ نے اولیاء مقتول کے حوالہ کردیا پھر آپ ﷺ کے دوسرے ارشاد کی بدولت ولی مقتول نے اسکو رہا کردیا۔ اس سے بھی رضاء قاتل کا ضروری ہونا معلوم ہوتاہے اور نص قرآنی بھی اس کا مؤید ہے۔ دخلت النار جس کے لئے فرمایا وہ اس لئے کہ تو اپنے معاصی کی وجہ سے جائیگا اور اگرعفو کیا تو تیرے معاصی زائل ہوجائیں گے تو جنت میںجائے گا۔وفیہ تاویلات أخر۔
باب دیت الجنین
اگر زندہ پیدا ہوکر مرجائے تو کامل دیت آئے گی اور اگر میت ساقط ہو تو دیت کا بیسواں حصہ یعنی پانچ سو درہم یا عبد یا امۃ یا