امام صاحب ؒ کو بھی تو کافی نہیں کہتے بلکہ اعادہ کا حکم فرماتے ہیں ۔(وقد بقی مابقی ، راقم)
باب التامین
آمین کہنے میں اختلاف نہیں جہر و اخفا کے استحباب واولویّت میں اختلاف ہے آثار و احادیث دونوں طرف موجود ہیں اور بلا شبہ آپ ﷺ نے بالجہر والاخفا دونوں طرح کیا ہے۔ پس ایک مجتہد کے مقلد کو دوسرے مجتہد کے مقلدین پر الزام لگانا خلافِ انصاف ہے کیونکہ حجت دونوں کے پاس موجود ہے ۔ جن احادیث میں تصریح جہرواخفاء ہے وہ قوی نہیں ۔یہ احادیث جو قوی ہیں ان سے صراحت جہر اوخفاء ہوتی نہیںمدبہا صوتہ کے معنیٰ یہ ہوسکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے آمین بالمد پڑھایا یہ کہ ایسی طرح سے پڑھا کہ آوازدراز ہوگئی جسکو دوسرے سُن سکتے تھے چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک شخص کی قرأت اور تسبیحات وغیرہ کو پوری طرح سنتے ہیں حالانکہ وہ جہر نہیں کرتا پس اس حدیث سے جہر نہیں ثابت ہوتا صحیح امر دربارہ اخفا وجہر یہ ہے کہ وہ بدیہی ہیں، اب فقہاء جو تعریف لکھتے ہیں وہ ادنیٰ درجہ اور حد لکھتے ہیں کہ اخفاء میں ادنی درجہ یہ ہے کہ تصحیح لفظ ہوجائے اور جہر کا ادنیٰ درجہ اسماع غیر ہے اب ممکن ہے کہ خِفاء میں بھی بعض دفعہ اسماع غیر ہوجائے اور وہ غایت اور اعلیٰ درجہ خِفاء کا سمجھا جائے۔ پس جب اعلیٰ سِرّ میں بھی اسماع غیر ہوگیا تو اس حدیث سے جہر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ اور نیز آمین دُعا ہے اور دُعاء کا قاعدہ یہ ہے کہ بالاخفاء ہو ۔ اس سے اور بھی ترجیح امام کے مذہب کو ہوتی ہے ۔ اور شعبہ کی روایت تو حنفیہ کی پوری موافق ہے باقی اس میں تین خطائیں نکال کر شعبہ کی روایت کو ضعیف کہنا درست نہیں۔ شعبہ وہی ہیں جن کو بعض محدثین امیر المؤمنین فی الحدیث فرماتے ہیں۔ اور پھر تخطیہ بھی ایک امر محتمل پر۔
پہلی خطاء کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ حجر دونوں طرح مشہور ہوں، ابن العنبس بھی اور ابوالعنبس بھی چنانچہ بعض حضرات نے اسکو لکھا ہے کہ دونوں طرح مشہور تھے اور بھی بعض لوگ اسی طرح دوطرح سے مشہور ہیں۔ باقی انکی کنیت کا اباسکن ہونا اباالعبنس ہونے کے مخالف نہیں اکثر لوگوں کی دو کنیتیں مشہور تھیں (جیسے ابوالحسن اور ابو تراب)۔
دوسری خطاء فی السند ہے اس میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سند پوری ہے۔ دوسرے رواۃ کی سند میں ایک راوی رہ گیاہے۔
تیسرے خَفَضَاور رَفَعَ اس میں کسی جانب کو ترجیح نہیں ہم کہتے ہیں کہ پہلے راوی نے غلطی کی جو مَدَّ بَھَا کہدیا صحیح خَفَضَ بھا ہے اپنے مذہب کی بناء پر کسی راوی کا تخطیہ درست نہیں۔
باب السکتات
بعض رواۃ ایک اور بعض دو سکتے بیان کرتے ہیں اور بعض تین بھی روایت کرتے ہیں۔ اصل یوں معلوم ہوتا ہے کہ سکتہ بعد الحمد اور سکتہ بعد القراء ۃ کو بعض نے معتد بہ نہیں سمجھا اور انکا کچھ خیال نہیں کیا۔ کیونکہ وہ نہایت خفیف سکتے ہوتے