کامفطر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ دوسری روایات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ مفطر نہیں۔ امام شافعی کو بغداد میں تو دونوں حدیثیں ثابت نہ تھیں لہٰذا وہاں اور قول تھا مصر میں آکر جب ابن عباس کی روایت قابل احتجاج ثابت ہوگئی تو حنفیہ اور جمہو ر کے موافق دوسرا قول فرمایا۔ اسی طرح اور بعض مسائل میں اول اول یا توامام شافعی صاحب کو احادیث نہ پہنچی تھیں یا پہنچی مگر ثابت نہ تھیں۔ مصر میں آکر بعض اورحدیثیں ملیں اور بعض کا ثبوت پورا ہوگیا۔اسی وجہ سے اکثر مسائل میں ان کے دو دو قول ہیں۔
باب صوم الوصال
بعض کہتے ہیں کہ نہی شفقۃً ہے اور اگر قوت ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں۔بعض فرماتے ہیںکہ وصال صوم فی نفسہ مکروہ ہے۔ پس وہ فرماتے ہیں کہ اگر وصال کرنا چاہے تو کسی نہایت قلیل سے افطار کرلیا کرے تاکہ ممانعت سے بھی نکل جائے اور وصال بھی ہوجائے۔مثلا دو قطرہ پانی وغیرہ سے افطار کرلے یا وقت افطار کے بعد کسی چیز سے افطار کرلے مثلا بعد العشاء یا نصف شب کو افطار کرے۔
باب دعوۃ الصائم
یعنی صوم کا عذر کردے ورنہ دعوت کرنے والا رنجیدہ ہوگا۔ اور اگر ضرورت ہو تو افطار بھی کرلے۔
باب
مبالغہ فی المضمضہ صائم کو منع ہونے سے معلوم ہوا کہ اگر خطاء کوئی چیز حلق میں داخل ہوگی تو بھی روزہ جاتارہے گا۔
باب الاعتکاف
جمہور کے نزدیک اکیسویں شب بھی داخل ہے اس میں بھی اعتکاف ہی ہونا چاہئے۔ ورنہ پورا عشرہ نہ ہوگا۔ کیونکہ اول تو لیالی آتی ہیں ۔ امام صاحب کے نزدیک عبادات شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہیں اور شافعی کے نزدیک نہیں ہوتیں اسی بناء پر خروج من الاعتکاف کے بعد شوافع قضاء اعتکاف کاحکم نہیں دیتے۔ یہاںمسئلہ اعتکاف میں امام صاحب بھی شوافع سے متفق ہیں کہ شروع سے قضاء لازم نہیں آتی کیونکہ عندالحنفیہ ایک روایت کے موافق کم ازکم اعتکاف ایک ساعت کا ہے اور دوسری روایت کے موجب کم سے کم ایک دن۔ پس اگر قضاء آئیگی تو بموجب روایت اولیٰ صرف ایک ساعت ہوگی۔ یابموجب روایت ثانیہ ایک دن کی۔ یہ نہ ہوگا کہ جس قدر ایام کی نیت کی تھی سب کی قضا کرے۔ یہ ایساہے جیساکہ اگر چار رکعت کی نیت کرے اور نماز توڑدے تو صرف دو رکعت کی قضالازم ہوتی ہے البتہ اعتکاف منذور میں