قریبًا من السواء کے یا تو معنیٰ یہ کہ قیام وقعود کے ماسواء اور ارکان قریب قریب برابر ہوتے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوگا کہ قومہ اور جلسہ بین السجدتین بھی رکوع و سجود کے برابر ہوتا تھا۔ یعنی ذرا دیر لگتی تھی یا یہ معنیٰ کہ نماز آپ ﷺ کی معتدلہ ہوتی تھی یعنی جتنا قیام ہوتا اسی کے مناسب مقدار(یعنی جتنے اسکے لئے ہوتے جائیں) بقیہ افعال ہوتے تھے۔
باب کراہت ان یبادر الامام
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم سجدہ کیلئے سر نہ جھکاتے تاوقتیکہ آنحضرت ﷺ سجدہ تک نہ پہنچ جاتے ۔ بہتر یہ ہے کہ امام اور مقتدی کے افعال میں زیادہ فصل نہ ہو برابر ہوتے رہیںالابوج خوف تقدم ذرا سی تاخیر کردی جائے تو حرج نہیں۔ اور اگر امام ضعیف ہو تو جب وہ رکوع وسجود تک پہنچ جائے تب مقتدی رکوع وسجود وغیرہ کرے چنانچہ اس حدیث سے یہی ظاہر ہے۔ اور یہ قصّہ آخر عمر شریف کا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا لاتسبقونی بالرکوع والسجود فانی قد بدّنت (او کمال قال) وھو غیر کذوب سے توثیق منظور ہے نہ یہ کہ زیادہ کاذب نہ تھے۔ اگر چہ بعض دفعہ کذب بولتے ہوں۔ پس کذوب بمعنی کاذب ہے یا یہ کہ کبھی کسی شے میں مبالغہ فی الضد النفی مراد ہوتا ہے پس اسطرح پر یہاں یہ مطلب ہوگا کہ بڑے صادق تھے۔
باب کراہت الاقعاء الخ
اقعاء مکروہ اقعاء کلب ہے اور غیر مکروہ دوسری طرح کا اقعاء ہے یعنی نصب قدمین کرکے اعقاب پر بیٹھنا ۔ جن لوگوں نے ابنِ عباس ؓنے اسکو سنت فرمایا ۔ آپ ﷺ نے احیانًا ایسا کیا ہوگا (اور صرف ایک دو دفعہ کرلینے سے سنت کا اطلاق ہوسکتا ہے) حدیثین کا تعارض رفع ہوگیا۔ باقی رہے حنفیہ وہ جواب دینگے کہ آپ ﷺ نے احیانًا ایسا کیا ہوگا۔ اسکو سنت سمجھنا ابنِ عباس ؓ کا مذہب ہوگا۔ پس عندالحنفیہ ایک میں کراہت کم درجہ کی ہے اور اقعاء کلب میں زیادہ ہوگی۔
باب مایقول بین السجدتین
امام صاحب ؒ ان اذکار کو فرائض میں اولیٰ نہیں کہتے لان مبناہ علے التخفیف جواز میں کلام ہی نہیں۔
باب الاعتماد فی السجود
افتراش ذرا عین مکروہ ہے۔ استعانت بالرکب یعنی مرافق کو رکب پر سہارا دینا جائز ہے دراز سجدہ یا ضعفیف میں اسکی ضرورت ہوتی ہے بلاضرورت نہ چاہیے۔
باب النہوض من السجود