چونکہ منظور نہیں لہٰذا س میں تعارض نہیںبلکہ تحقیر مقصود ہے کہ تھوڑا سا ثواب کم ہوجائے گا یا باعتبار تفاوت اقسام کلاب کے یا باعتبار ضرورت شدہ وغیرہ کے قیراط وقیراطان کا فرق ہے بعض تاویلات محشی کرتے ہیں۔
باب الاضحیۃ
میت کی طرف سے اضحیہ جائز ہے اگر اس کے امر سے کیا ہو تو اس میں سے کھانا جائز نہیں بالکل تصدق کرے اگر بلا امر کیا ہے تو اس کو کھانا بھی جائز ہے۔
باب جذع
یعنی دنبہ وبھیڑ چھ ماہ کا جائز ہے بشرطیکہ وہ ایسا توانا ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتاہو، بقر وابل میں جمہور کے نزدیک سات سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں۔ امام اسحق نے دس تک فرمایا ہے۔ مکسورۃ القرن جائز ہے بشرطیکہ کسر قرن کی وجہ سے دماغ تک صدمہ نہ پہنچ گیا ہو جس کے خلقی تھن نہ ہوں وہ جائز نہیں مکسورۃ القرن کی نہی کو تنزیہی کہیں گے۔
باب شاۃ واحد عن اہل بیت
جمہور تو ایک شاۃ یا کبش کو صرف ایک ہی شخص کی طرف سے جائز فرماتے ہیں۔امام احمد واسحق فرماتے ہیں کہ ان دو روایتوں سے ایک بکری کا کئی آدمیوں کی طرف سے کافی ہونا معلوم ہوتاہے لہٰذا ایک شاۃ تمام اہل بیت کی طرف سے ذبح کردی جائے، جمہور جواب دیتے ہیں کہ اول روایت میں تو قلۃ کو بیان کرنا مقصود ہے کہ افلاس وعسرت کی وجہ سے سارے کنبہ اور گھر والوں میں سے صرف ایک آدمی قربانی کرتاتھا۔ یہ نہیں کہ ایک شاۃ سب کی طرف سے ہوتی تھی اور دوسری روایت کا جواب یہ ہے کہ وہاں ایصال ثواب ہوتا تھا نہ کہ شرکت فی الحصہ۔
باب العقیقۃ
عقیقہ مستحب ہے،سات روزکا بہتر اور افضل ہے۔ چودہ اور اکیس روز کو بھی علماء نے فرمادیا ہے، اس سے زیادہ استحباب نہیں رہتا کرنے کو جب چاہے کرلو۔
باب العتیرۃ
وجوب بالاتفاق منسوخ ہے۔ استحباب کا قول سعید ابن المسیب وغیرہ کا ہے۔ دیگر علماء کے کلام سے معلوم ہوتاہے کہ اب وہ مشروع ومستحب بھی نہیں کیونکہ دم اضحیہ سے بقیہ دماء اورصدقۂ زکوٰۃ سے باقی صدقات منسوخ ہوگئے ہیں۔گزشتہ روایات میں ممانعت عتیرہ جاہلیت سے تھی جو بہ نذر اصنام ہوتاتھا۔