ضعف۔ امام بخاری نے دونوں روایتوں کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے خلاف فی الحقیقت نصف جزو میں ہے کیونکہ نصف کی حریت تو بالاتفاق ہوگی باقی نصف کے بارہ میں یہ خلاف ہورہاہے۔ امام صاحب بین بین ہیںکہ اگر موسر ہو تو اس کا شریک خواہ ضمان لے یا آزاد کرے یا سعایت کرائے اور حالت اعسار میں سعایت اور عند الجمہور ضمان یا سعی، وہو قول الصاحبین۔ امام طحاوی نے بھی امام کے قول پر صاحبین کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔اور خلاف فی الواقع تجزی عتق میں ہے اسی پر یہ خلاف مبنی ہے اس خلاف میں اگر امام صاحب کی جانب صحیح ہے تو یہاں ان کا مذہب اقویٰ اور لم یٹل ہے اور اگر شافعی کا مذہب تجزی کے بارہ میں درست ہے تو یہاں پہلے انہیں کا قول مسموع ہوگا اور شافعی موسر معسر میں عدم تجزی وتجزی کا فرق کرتے ہیں مگریہ درست نہیں اگر تجزی کا قائل ہونا ہے تو سب جگہ وہی کہنا چاہئے اور اگر عدم تجزی ہوتو ہر جگہ وہی چاہئے۔
امام صاحب اور محدثین اہل ظاہر تجزی میں متفق ہیں لیکن اتنا فرق ہے کہ وہ تجزی کی بقا کے بھی قائل ہیں اور امام صاحب سعی یا ضمان سے باقی کو بھی آزاد کردیتے ہیں۔ وہ روایت کہ ایک شخص نے اپنا نصف غلام آزاد کرادیاامام صاحب کو مضر نہیں۔ اہل ظاہر کو مضر ہے کیونکہ آخر کو آزاد تو عنداالامام بھی ہوہی جاتاہے لاعتق فیما لا یملک جمہور کے خلاف ہے۔ امام صاحب چونکہ فی الحال بعض کو آزاد کرتے ہیں اور بقیہ بذریعہ سعی وغیرہ پھر آزاد ہوگا پس لا عتق کی روایت ان کے خلاف نہ ہوگی۔ غرض امام صاحب کے کوئی روایت خلاف نہیں بلکہ دیگر حضرات بھی جہاں تک امام صاحب کے ساتھ ہیں روایات کے موافق ہیں اور جتنے جز میں امام کے خلاف ہیں اسی قدر میں روایات کا خلاف لازم آتاہے اہل ظاہر بقاء تجزی میں خلاف ہیں تو ابن عمرؓ کی روایت کا آخری حصہ ان کے مخالف ہے۔ شافعی سعی وغیرہ میں خلاف ہیںتو ابی ہریرہ ؓ کی روایت کا خلاف لازم آتاہے۔ امام طحاوی نے روایات کو جمع کرکے امام کے مذہب پر صاحبین کے قول کو ترجیح دی ہے لیکن تمام روایتیں جمع نہیں کیں اور ترجیح درست نہیں معلوم ہوتی۔ واللہ اعلم۔ تجزئی اعتاق وعتق میں امام صاحب سے دو روایتیں ہیں ایک میں دونوں متجزی ہیں ایک میں اعتاق متجزی ہے عتق متجزی نہیں اور ایک روایت ہے کہ دونوںمتجزی نہیں۔
باب العمریٰ والرقبیٰ
عمریٰ کی تین صورتیں ہیں: (کما ہو علی الحاشیہ) پہلی صورت میں بالتفاق ہبہ کامل ہے عود نہ ہوگا۔ دوسری صورت میں امام صاحب وثوری کے نزدیک ہبہ ہوجائے گا رجوع نہ ہوگا۔ امام مالک کہتے ہیں کہ بعد موت موہوب لہ کے واہب کی طرف یہ واپس ہوجائے گا۔ تیسری صورت میں امام مالک وغیرہ تو بدرجہ اولیٰ رجوع کو فرماویں گے کیونکہ وہ تو دوسری صورت میں بھی رجوع الی الواہب کے قائل ہیں۔ امام صاحب وثوری اس کی شرط کو لغو کہتے ہیں اور اس کاحکم بھی پہلی صورتوں کی