ہیں کہ جو اس کے لائق وسزا وار ہوگا وہ مغفور ہوگا۔ عتقاء اللّٰہ یا تو رمضان ہی کے ساتھ خاص ہو یاعموما۔
باب الایلاء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء شرعی نہیں کیاتھا( جو چارماہ سے کم کا نہیں ہوتا کما بین فی الفقہ) بلکہ قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک ازواج میں نہ جاؤں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ایلاء تو ایک ماہ کا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتیس دن میں کیسے تشریف لے آئے۔ آ پ نے فرمایا کہ مہینہ انتیس روز کا ہے۔ یعنی الشہرسے ہذا الشہر مراد تھا۔
باب شہادۃ الصوم
امام صاحب وامام شافعی رحمہمااللہ ک نزدیک شہادت صوم میں نہ لفظ شہادت ضروری ہے نہ عدد۔ اعرابی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار شہادتین زیادۃ توثیق کی غرض سے کرایا باقی عدالت توصحابہ میں بلا تفریق موجود تھی (الصحابۃ کلہم عدول) لہٰذا صرف شہادت ایمانی کافی تھی۔ عید کی شہادت میں عدد وعدالت ولفظ شہادت ضروری ہے۔
باب شہرا عیدلاینقصان
میں دو احتمال ہیں یا تو یہ غرض ہوکہ اجروثواب ان ہر دو مہینوں کاکم نہیں ہوتا گو تعداد ایام کم ہوجائے جو کچھ فضیلت رمضان وذی الحجہ کی ہے وہ پھر بھی بحالہا قائم رہتی ہے۔ اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک قاعدہ کلیہ ہوجائیگا اورشہر اعید سے ہر فرد شہر مراد ہوگا۔یعنی نہ یہ کم ہوتاہے نہ وہ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ ذی الحجہ ورمضان دونوں انتیس انتیس دن کے ہوجائیں بلکہ اگر احدہما انتیس دن کاہوگا تو دوسرا تیس کا ہوتاہے۔ اس طرز پر یہ قاعدہ اکثر یہ ہوگا اور شہرا عید سے مجموعہ مراد ہوکر مجموعہ پرحکم ہوگا یعنی دونوں کم نہیں ہوتے احدہماہوجائے توکچھ مضائقہ نہیں۔(یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اس سال کے لئے فرمایاہو مگر اس خصوصیت کی دلیل کوئی نہیں۔راقم)
باب الرؤیۃ
اختلاف مطالع کا شوافع اعتبار کرتے ہیں اور ان میں دو قول ہیں ایک یہ کہ ہر ہر شہر ودیار کا حکم علیحدہ ہوگا۔ اوردوسرا یہ کہ جو جگہ وشہر اس قدر فاصلہ پر ہوں کہ مطلع بدل جائے وہاں حکم علیحدہ علیحدہ ہوگا۔ یعنی ایک جگہ کی رویت سے دوسری جگہ والوں پر لازم نہ ہوگا(وصححہ النووی) امام صاحب کی اقویٰ روایت یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا بالکل اعتبار نہیں ایک جگہ کی رویت سے سب جگہ واجب ہوجاتاہے یہ روایت امام کی صحیح وقوی ہے گو اور بین بین روایتیں بھی ہیں ہکذا امرنا رسول اللہ