باب الحوالۃ
غنی اگر مطل کرتے تو اس سے بے حرمتی سے لیاجائے کما قال علیہ السلام یحل عرضہ الخ حوالہ بالاتفاق جائز ہے چنانچہ اس روایت سے جوازثابت ہے مگر امام شافعی فرماتے ہیں کہ اصل مدیون کے ذمہ سے دین ساقط ہوکر محیل علیہ کے ذمہ ہوجائے گا اورپھر کسی حال میں دائن کو مدیون اصل کی طرف رجوع درست نہ ہوگا بخلاف کفالہ کے کہ اس میں دونوں طرف سے طلب کرنا جائز ہے۔ امام صاحب اتنی بات میں موافق ہیں کہ دائن کو مدیون اصل سے تقاضا وطلب جائز نہیں لیکن جبکہ محتال علیہ سے وصول کی امید نہ رہے تب اصلی مدیون سے طلب کرے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ بالکل کسی حال میں مدیون اصل سے واسطہ نہ رہے گا۔امام اسحق نے حضرت عثمان کے قول کی یہ تاویل کی کہ جب اصل حوالہ میں دھوکا ہوگیا ہو تب اصل مدیون سے رجوع کرے ورنہ نہیں۔ پس انہوںنے عدم رجوع اور قول عثمان دونوں کی رعایت کی۔ امام صاحب امر بین بین رکھتے ہیں نہ اصل مدیون پر تقاضا کرسکتاہے گومحتال علیہ مفلس ہی ہوجائے مگر جبکہ محتال علیہ سے بالکل یاس ہوجائے اور یاس عندالامام دوہی صورتوں میں ہوسکتی ہے یاتویہ کہ محتال علیہ بلا ترک محال مرجائے یا انکار کردے اور دائن کے پاس بینہ موجود نہ ہوں حیات میں افلاس کااعتبار نہیں کیونکہ یاس نہیں ہوتی فان المال غادو راح اور اگر بینہ موجود ہوں تو بھی امید ہے گووہ انکارہی کرتاہے۔
باب السلم
اصل سلم تو مکیلات میں ہے مگر فقہاء نے مزروعات وعددیات میں بھی جائز فرمایا ہے بشرطیکہ ضبط اوصاف ممکن ہو۔ حیوان کا نسیہ عندالامام جائز نہیں امام شافعی نسیہ فی الحیوان کو جائز فرماتے ہیں اور اصل اختلاف اس میں ہے کہ حیوان کی تعیین ہوسکتی ہے یا نہیں؟ امام صاحب نے اس کو مثلی اور ممایعین نہیں سمجھا اور یہی ظاہر ہے۔ اور شافعی نے اس کو ممایعین سے سمجھا۔ پس انسان ودواب میں نسیہ جائز فرمایا۔
باب المحاقلۃ
محاقلہ اور مزابنہ بلاخلاف ناجائز اور عریہ جائز ۔ مگر تفسیر میں خلاف ہے مخابرہ عندالامامین ممنوع اور عندالاحناف والشوافع وجمہور المحدثین جائز۔ معاومہ ناجائز ہے کیونکہ بیع معدوم ہے۔ زمین کا اجارہ جائز ہے اس لئے کہ صرف زمین دی جاتی ہے بطور زراعت کے نفع اٹھاؤ خواہ سکونت کرو بخلاف اشجار کے کہ ان کا اجارہ جائز نہیں۔ لان الثمار لیس من المنافع۔
باب استقر اض بعیر